Thursday, 6 April 2017

جتنی پلید یہ قیادت ہے، اس سے زیادہ پلید یہ نظام ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم۔ نظام بدلا تو قیادت بھی جائے گی،


آج سندھ میں عام تعطیل ہے۔ بھٹو مرگیا کیا....؟
اس ملک کے چودہ کروڑ سے زائد افراد نے یا تو بھٹو کا دور دیکھا ہی نہیں، یا پھر وہ اتنے چھوٹے تھے کہ انہیں کچھ یاد نہیں۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد، کہ جب پوری قوم خون کے آنسو روتی تھی، بھٹوآیا ، اور پھر بچی کچی انسانیت بھی دریائے سندھ میں غرق ہوگئی۔
یہ سب ہماری آنکھوں کا دیکھا ہے، گلی گلی شراب خانے و طوائف خانے تھے، کلفٹن کے ساحل پر ایشیاءکا سب سے بڑا جوا خانہ تعمیر ہورہا تھا۔
بھٹو کے دور میں ہمارے والدین ہمیں پی ٹی وی نہیں دیکھنے دیتے تھے ،کہ شب ڈھلتے ہی فحش فلموں کا آغاز ہوجاتا تھا۔
ایک صدقہ جاریہ انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کے درجات کو بلند کرتا رہتا ہے، اور ایک شخص کا لگایا ہوا شجرخبیثہ دائمی عذاب میں اضافے کے باعث
میں یہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی شکل میں جو شجرخبیثہ بھٹو نے لگایا آج وہ کس طرح اس کیلئے درناک عذاب کا باعث بن رہا ہوگا
فیڈرل سیکورٹی فورس کے نام سے ایک دہشت گرد تنظیم اس نے بنائی کہ جس کا مقصد اپنے مخالفین کو قتل، اغوائ، آبروریزی اور دھمکانا تھا۔
اسی ایف ایس ایف کے ذریعے اس نے احمد رضا قصوری کے والد کو بھی قتل کرایا۔ قصوری دلیر آدمی تھا، بھٹو کی جان کو آگیا اور پھانسی لگوا کر چھوڑی
قرآن میں شہداءکا مقام تو انبیاءاور صدیقین کے ساتھ ہے۔ یہ کیسی توہین رسالت ہے کہ ایک قاتل، زانی، شرابی اور غدار کو شہید لکھا جاتا ہے۔
بھٹو کوئی سیاسی شہید نہیں ہے، پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ سے سزا یافتہ ایک سفاک قاتل ہے کہ جس نے ملک توڑا، اور پھر اپنے انجام کو پہنچا
بھٹو کے بعد اس کی ناپاک اولاد نے پاکستان کی پہلی دہشت گردی تنظیم ”الذوالفقار“ بنائی۔ اس نے جہاز اغواءکیے، پاکستان پر حملے کیے۔
بھٹو کا داماد ، یہ تو خبث علی خبث ہے۔ فطرتاً ڈکیت، کراچی میں گندگی فلموں کے ٹکٹ بلیک کرنے میں مشہور، مشہور معاشی دہشت گرد اور قاتل۔
جب اللہ چاہے گا بینظیر کے قتل کا راز بھی کھلے گا، تو معلوم ہوگا کہ ٹکٹ بلیک کرنے سے لیکر صدارت تک کا سفر اس دہشت گرد نے کیسے طے کیا۔
اب بھٹو کی تیسری نسل، کوئی ہیجڑہ نما وجود، پاکستان کا وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، اور یہی جمہوریت رہی تو وہ بن بھی جائے گا
سندھ میں تو سارا سال ہی بھٹو زندہ رہتا ہے، صرف آج کے دن ہی مرتا ہے کہ جس دن اس کے پجاری گڑھی خدا بخش کے مندر پر پوجا کیلئے آتے ہیں۔
یہ غلاظت و کفر و شرک کے انبار کب تک اس پاک سرزمین پر مسلط رہیں گے، اس کا فیصلہ تو میرا رب ہی کرے گا۔ شاید یہ قوم یہی غلاظت چاہتی ہے۔
میرا وجود ہی یہ سوچ کر کانپ جاتا ہے کہ آخرت میں کیا منظر ہوگا کہ جب یہ جیالے بھٹو و زرداری کی قیادت میں دوزخ کی طرف گھسیٹے جارہے ہونگے۔
روز محشر تو یقیناً بھٹو زندہ ہوگا، اس کا حساب بھی ہوگا، انجام بھی دنیا دیکھے گی، اور پھر واقعی جہنم کے گڑھے میں اس کو موت بھی نہیں آئے گی
جو انجام بھٹو کے جیالوں کا ہوگا، وہی آخرت میں الطاف و نواز کے پجاریوں کا حال بھی ہوگا۔ ہر جماعت اپنے امیر کے ساتھ اٹھائی جائے گی۔
جو اپنے ان جھوٹے خداﺅں کے ساتھ جہنم میں جانا چاہتا ہے، شوق سے جائے۔ ہم سے یہ توقع نہ کریں کہ ہم ان بتوں کی عزت کریں گے یا کوئی لحاظ۔
آج اگر الیکشن ہوئے تو یقیناًً سندھ میں صورتحال اس سے مختلف نہیں ہوگی۔ ایک اندھی، گونگی اور بہری قوم کو چور اور ڈاکو ہی پسند آسکتے ہیں۔
جتنی پلید یہ قیادت ہے، اس سے زیادہ پلید یہ نظام ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم۔ نظام بدلا تو قیادت بھی جائے گی،
اب اس غلاظت کا خاتمہ اللہ اپنے کسی مرد درویش سے کرواتا ہے، سڑکوں پر خونریزی سے کرواتا ہے، یا نریندر مودی کے ہاتھوں۔ اب ہم دیکھیں گے۔
ہم اس غلاظت کے خلاف اعلان بغاوت کرچکے ہیں۔ ہماری قیادت سیدی رسول اللہﷺ کی ہے، اور نظام خلافت راشدہ کا
اللہ انفرادی غلطیوں و کوتاہیوں کو تو درگزر فرما دیتا ہے، مگر اجتماعی ذلالت کی بڑی عبرتناک سزا دیتا ہے۔ بھٹو اسی ذلالت کی صرف ایک نشانی ہے
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1271504812904327