Dear members, each one of you must read this Ibratnaak anjam of Bhutto...his darkest story of crimes, arrogance and treason. He is NOT a shaheed....he is one of the most cruel killer in Pak politics....he broke Pakistan, killed thousands and then was hanged...90% of Pakistanis today dont know his real story...those who know chose to stay silent for fear or favor.
This is "democracy" of Pakistan. This is reality of PPP. PMLN is no different. MQM is no different...But Bhutto's story you must read...it gave me shivers....
پاکستانی تاریخ کا ایک اہم راز ذوالفقار علی بھٹو اپنے جذبہ انتقام کی بدولت ہی پھانسی کے تختے پر جا پہنچے۔
ذوالفقار علی بھٹو بظاہر توعام انسان ہی تھے لیکن ان کا مزاج اور فیصلے آمرانہ رہے ۔ وہ اختلاف رائے کو اپنی توہین تصورکرکے اختلا ف کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاکرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی انتقامی کاروائیوں کی تفصیل بھی بہت طویل ہے ۔تفصیل میں جائے بغیر یہاں صرف ان کے اسمائے گرامی درج کررہا ہوں تاکہ بطور ریفرنس نام محفوظ رہیں ۔ مسٹر بھٹو کا سب سے پہلا شکار ڈیرہ غازی خان سے جماعت اسلامی کے ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد بنے۔دوسرا شکار خواجہ محمد رفیق ٗ تیسرا شکار بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام کے مولوی شمس الدین ٗ پیر پگاڑا کے چھ حرمرید ٗ نیپ پختون خواہ کے لیڈر عبدالصمد اچکزئی ٗپیر پگاڑا کے ہی ایک اور خلیفہ فقیرمحمدامین ٗکراچی کے ضامن علی ٗ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم رہنما عبدالوحید ٗ صادق آباد کے ممتاز طبیب ڈاکٹر محمد سلیم باجوہ ٗفیصل آباد کے دو بھائی (جن کا نام خوشنود عالم اور محمدانور تھا) بھی مسٹر بھٹو کے جذبہ انتقام کا نشانہ بن کر اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھے ۔(اقتباس ہفت روزہ تکبیر کراچی ) ۔مسٹر بھٹو نے جہاں مخالفین کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگے وہاں پیپلز پارٹی کے بانی اراکین اور اپنے دیرینہ ساتھیوں کو بھی نہیں بخشا ۔ جے اے رحیم کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے انہیں اختلاف کی سزا دینے کے لیے بدنام زمانہ تنظیم ایف ایس ایف کو ہی استعمال کیاگیا۔جن پر اس قدر تشدد کیاگیا کہ ان کے چہرے اور ناک پر گہرے زخم آئے ۔ملک محمد قاسم ٗ خواجہ خیرالدین ۔مولانا شیر محمد ٗ ممتاز شاعر حبیب جالب ٗمولوی سلیم اﷲ ٗجماعت اسلامی کے رکن مجلس عاملہ رانا نذر الرحمن ٗمیاں محمد یسین خان وٹو ٗ سید قسور گردیزی ٗغفوراحمد شامل ہیں ۔بھٹو دور میں ہی دلائی کیمپ کو قومی سطح پر شہرت ملی ۔ دلائی کیمپ میں بھی میاں افتخار احمدتاری سمیت درجنوں اپنے اور پارٹی مخالف لوگوں کو بہیمانہ تشدید کا نشانہ بنایا گیا ۔بہرکیف مسٹر بھٹو نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنے جذبہ انتقام کو تسکین دینے کے لیے اپنی قائم کردہ تنظیم ایف ایس ایف کے ذریعہ بے شمار قتل بھی کروائے اور ہزاروں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور بھی کیا ۔ اس حوالے سے مسٹر بھٹو اس قدر ماہر ہوچکے تھے کہ ان کے مخالفین کا ہونے والا کوئی ایک قتل بھی پکڑا نہیں جاسکا ۔سوائے نواب محمداحمد خان قتل کے ۔ اس قتل کیس کو بھی شاید وہ مہارت سے دبا دیتے ٗاگر ایف آئی آر میں مسٹر بھٹو کا براہ راست نام شامل نہ ہوتا اور 5 جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل نہ لگتا ۔ اسی لیے کہاجاتاہے کہ انسان جب دوسروں کو بیوقوف اورخود کو حد سے زیادہ چالاک ٗہوشیار اور شاطر تصور کرنے لگتا ہے تو قدرت جوش میں آتی ہے پھر وہ اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں کچھ اس طرح پھنس جاتاہے کہ اسے خبر بھی نہیں ہوتی ۔مسٹر بھٹو کے دور اقتدار کی کہانی بہت پر پیچ اور حیرتوں کاسامان لیے ہے ۔ جس کی تہہ میں اترنے کے لیے بے شمار تاریخی گوشوں کو وا کرنا پڑاہے ۔ مسٹر بھٹو قدرت اور قانون کی گرفت میں کیسے آئے اور کیسے عدالت میں مقدمہ قتل کی فرد جرم ان پر عائد ہوئی اور کیسے ان کے لیے سزائے موت تجویز ہوئی ۔کوٹ لکھپت جیل اور ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں پھانسی کے پھندے پر جھولنے تک ان پر کیا گزری ٗ یہ پاکستانی تاریخ کا ایک اہم ترین راز ہے ۔ اس میں جہاں عبرت کا سامان ہے وہاں اس قصے سے بے شمار کہانیاں بھی جنم لیتی ہیں ٗ جو بھٹو خاندان کے اردو گرد گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔آئیے مسٹر بھٹو کی کہانی 1977ء سے شروع کرتے ہیں جب انہوں نے مزید پانچ سال اقتدار پر قابض رہنے کے لیے قومی سطح پر الیکشن کروانے کا فیصلہ کیاتھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کو مزید پانچ سال طول دینے کے لیے7 مارچ 1977ء کو قومی الیکشن کروانے کا اعلان کردیا ۔ جبکہ فوج سمیت ہر قومی ادارے پر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے جیالوں کا مکمل کنٹرول تھا ۔ کسی کوئی جرات نہ تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف زبان کھول سکے ۔ پوری قوم کو آٹا چینی لینے کے لیے ڈپووں کے سامنے لمبی قطاریں لگانی پڑتیں ۔یہ راشن ڈپو صرف پیپلز پارٹی کے جیالوں کو ہی الاٹ کیے جاتے جبکہ راشن کارڈ بنوانے کے لیے پیپلزپارٹی سے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے جیالوں کی سفارش بھی ضروری سمجھی جاتی ۔تب کہیں جاکر آدھا کلو چینی فی کس اور پانچ کلو آٹا ملتاتھا ۔ یہ پندرہ دن کا کوٹہ ہوتا ٗ پندرہ دن بعد پھر یہی پریکٹس دھرائی جاتی ۔بہرکیف قومی الیکشن کا اعلان ہوا تو جن مخالف امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی جستجو کی ۔ ان میں سے اکثریت کو پیپلز پارٹی کے غنڈوں نے اغوا کرکے نامعلوم مقامات پر قید کردیا ٗ جب کاغذات نامزدگی کا وقت ختم ہوا تو یہ اعلان کردیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے آدھے سے زائد امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوگئے ہیں ۔ پھر جب قومی الیکشن کا دن آیا تو رہی سہی کسر پیپلز پارٹی کے امیدوار وں نے اپنے مسلح ساتھیوں کے ذریعے بولنگ بوتھوں پر ووٹوں کے خالی بکس اٹھا کر ان کی جگہ ووٹوں سے بھرے بکس رکھ کر پوری کردی ۔ شام ڈھلے جب نتائج کااعلان ہوا تو پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی ۔ قومی سطح پر حد سے زیادہ دھاندلی کے پیش نظر پیپلز پارٹی مخالف سیاست دانوں نے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کرلیا جس میں اصغرخان ٗ مولانا شاہ احمدنورانی ٗ غفور احمد ٗ ملک قاسم اور دیگر سیاست دان شامل تھے ۔ان سیاست دانوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پرجمع ہوکر صوبائی الیکشن کا بائیکاٹ کردیا اور احتجاج کے لیے عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی تاکید کی ۔اپوزیشن کی کال پر عوا م کا جم غفیر دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتا ہوا سڑکوں پر نکل آیا۔پیپلز پارٹی کو اپنی دھاندلی کے خلاف یہ احتجاج ہرگز قبول نہ تھا چنانچہ ذوالفقار بھٹو کے حکم پر ایف ایس ایف (فیڈرل سیکورٹی فورس ) پولیس اور مسلح جیالوں نے عوامی احتجاج کو طاقت سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ لیکن جو ں جوں تشدد بڑھنے لگا اسی طرح عوامی تحریک میں گرمجوشی بڑھنے لگی ۔ پاکستان قومی اتحاد کے جلسوں اور جلوسوں میں لاکھوں کی تعدا میں لوگ شریک ہوکر دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے لگے ۔ احتجاجی تحریک میں شدت پیدا ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے تین شہروں میں عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے فوج طلب کرکے جزوی مارشل لاء لگادیا ۔اس دوران فوج نے مظاہرین پر کئی مقامات پر گولیاں بھی چلائی لیکن حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے احتجاج کے پیش نظر فوج میں شدید ردعمل کا اظہار ہونے لگا ۔ تین بریگیڈئر نے عوام کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ ایسی ہی صورت حال کا سامنا دیگر شہروں میں بھی دیکھنے میں آیا ۔ چنانچہ فوج میں بڑھتی ہوئی تشویش کو دیکھتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کی صدارت میں کورکمانڈر کااجلاس راولپنڈی میں ہوا۔ جس میں ملک کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کیاگیا کہ بھٹو صاحب کو فوج کی جانب سے سیاسی تصفیے کا مشورہ دیاجائے ۔ ہفت روزہ تکبیر میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کورکمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل جہاں زیب ارباب صورت حال کا کچھ اس طرح اظہار کرتے ہیں ۔" فوج نے بھٹو صاحب کو دوبارہ الیکشن کروانے کے لیے تین ماہ کا وقت دیا ۔اس کے بعد بھٹو صاحب نے کابینہ کے اجلاس میں آرمی چیف سمیت تمام کور کمانڈرز کو بھی طلب کرنا شروع کردیا ۔دوران اجلاس بھٹو صاحب نے مجھے مخاطب ہوکر کہا کہ کراچی کے حالات تسلی بخش نہیں ہیں حالات کنٹرول میں کیوں نہیں ہورہے ۔ میں نے جواب دیا سر ۔ بہتر یہ ہے کہ آپ سیاسی تصفیہ کرلیں کیونکہ بپھری ہوئی عوام کو کنٹرول کرنا فوج کے بس میں نہیں ہے ۔ اس پر ٹکا خان (جو فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو کے مشیربن چکے تھے )نے کہا ملک کی خاطر تیس چالیس ہزار بندے اگرمار دیئے جائیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا ۔میں نے کہا ٹکا خان آپ بھٹو کے مشیر ہیں فوج کے نہیں۔ اس لیے اپنی زبان بند ہی رکھیں تو بہتر ہے ۔ اس پر وزیر صحت شیخ رشید کہنے لگے چین میں ثقافتی انقلاب کے دوران دس لاکھ افراد کو مار دیاگیا تھا ٗ پھر سب کچھ ٹھیک ہوگیا ۔آج آپ پر فرض عائد ہوتاہے کہ آپ بھی جمہوریت کے تحفظ کے لیے یہ کارنامہ انجام دے دیں ۔ یہ آپ کا تاریخی کارنامہ ہوگا ٗ اس طرح ملک ترقی کرے گا ۔ شیخ رشید کااتنا کہنا تھا کہ جنرل اقبال خان گرج کر بولے ....تم جاؤ اور لوگوں کو خود ماردو ....ہم عوام کو نہیں مارسکتے۔اس کے ساتھ ہی کابینہ کا اجلاس ختم ہوگیا اور میں کراچی واپس آگیا لیکن اس کے بعد تین دنوں میں بھٹو صاحب کے مجھے تین فو ن آئے۔ پھر پیپلز پارٹی کے معتبر افراد کو بھی بھیجا گیا اور مجھے اس کام کے عوض جنرل ضیاء الحق کی جگہ آرمی چیف بنانے کی پیشکش بھی کی گئی ۔میں نے پھر بھی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ پھر صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلی ارباب جہانگیر (جو رشتے میں میرے ماموں تھے ) انہیں میرے پاس بھیجا گیا کہ میں بھٹو کی حمایت کروں اور عوامی بغاوت کو کچلانے میں ان کا ساتھ دوں ۔ لیکن میرا جواب ہر مرتبہ انکار میں ہی رہا ۔"
اس وقت کے کورکمانڈر راولپنڈی جنرل فیض علی چشتی اردو ڈائجسٹ کے شمارہ جولائی 2016ء میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ لاہور میں تین بریگیڈئروں نے عوام پر گولی چلانے سے انکا ر کرتے ہوئے احتجاجا استعفے دے دیے تھے ۔فوج کی Back Bone ٹوٹ رہی تھی اگر فوج ہی ختم ہوجاتی تو پھر بھارت جیسے ازلی دشمن کو موقع مل جاتا کہ وہ حملہ کرکے پاکستان کو ہی ختم کردے ۔جنرل فیض چشتی نے کہا کہ ہمیں اس بات کا علم تھا کہ ہم جو کام کرنے جارہے ہیں ٗ آئین میں اس کی سزا موت ہے۔ ایک طرف حالات اس قدر خراب ہوچکے تھے کہ فوج کو یہ رسک لینا پڑا ۔7 مارچ سے ( جس دن الیکشن ہوئے ) سے لے کر 4 جولائی تک ہم نے بھٹو حکومت کو سپورٹ کیا لیکن جب حالات دن بدن خراب ہوتے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آئے ۔ ہر شہر میں کشت و خون جاری تھا اس لمحے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ حکومت کا تختہ الٹادیاجائے اور فوج معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لے ۔ کوثر نیازی کی کتاب "اور لائن کٹ گئی " پڑھیں اس کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جنرل ضیا ء الحق اور کور کمانڈر بھی اس میٹنگ میں بھٹو صاحب کے ساتھ موجود تھے۔ جنرل عبداﷲ ملک کی بات پر میں نے کہا یہ سیاسی مسئلہ ہے اس کا حل بھی سیاسی ہی ہونا چاہیئے لیکن اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے یہ فقرہ کہا,
you donot worry I will do the needful. These bastards are not coming on the correct path.
مارشل لاء لگانے میں پانچوں کورکمانڈر متفق تھے ۔ جب چیف کی جانب سے حکم ہوا تو یہ میری ذمہ داری تھی کہ ایکشن کامیاب ہو ۔اس وقت فوج کے مقابلے میں پولیس ٗ ایف ایس ایف بھی تھی۔ جسے بھٹو نے فوج سے لڑنے کے لیے جدید ترین ہتھیار بھی دے رکھے تھے ۔ ان کے پاس ٹینک بھی تھے چنانچہ ہم نے انتہائی احتیاط کے ساتھ آپریشن فیئر پلے مکمل کیا ۔5 جولائی کی رات بھٹو صاحب کا جنرل ضیاء الحق کو فون آیا کہ فوج کی موومنٹ کا مطلب کیا ہے ؟ ضیاء الحق نے کہا سر ہم نے ٹیک اوور کرلیا ہے ۔ اب آپ پرائم منسٹر نہیں رہے ۔ اس پر بھٹو صاحب نے پوچھا اب میرے لیے کیا حکم ہے ؟ ضیا ء الحق نے جواب دیا کہ جیسا آپ چاہیں ٗ آپ کی خواہش ہو تو رات پرائم منسٹر میں بھی گزار سکتے ہیں ۔ صبح آپ کو مری لے جائیں گے ۔ پھر اگلی صبح جب بھٹو صاحب کو مری منتقل کردیا تو وہاں جنرل ضیاء الحق اور میں دونوں ان سے ملنے گئے ۔ اس ملاقات میں بھٹو کو حفاظتی حصار سے رہا کردیاگیا اور بھٹو صاحب واپس لاڑکانہ چلے گئے ۔16 جولائی کو انہوں نے پھراپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں ۔یہ ملتان کی بات ہے جب بھٹوصاحب نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں جنرلوں کو لٹکا دوں گا ۔ نواب محمد احمد خان کے قتل کامقدمہ خود بھٹو صاحب کے دور میں ان کے خلاف درج ہوا تھا ٗ مقتول کے بیٹے احمد رضا قصوری نے ایف آئی آر میں بھٹو کا نام لکھوایا تھا یہ 302 کا مقدمہ تھاجو ختم نہیں ہوتا اور زائد المیعاد بھی نہیں ہوتا ۔مجھے یہ بتایا گیا کہ مقتول کی بیگم نے جنر ل ضیاء الحق سے ملاقات کی اور کہا کہ اگر اب بھی مجھے انصاف نہ ملا تو کب ملے گا ؟ میں انصاف کس سے مانگوں ۔یہ کیس سیشن کورٹ سے براہ راست ہائی کورٹ میں پہنچ گیا ۔"یہ باتیں جنرل (ر) فیض علی چشتی کی ہیں جو بھٹو کا تختہ الٹتے وقت کور کمانڈر راولپنڈی تھے اور الیون بریگیڈ کی کمانڈ ان کے پا س تھی۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز کے سنئیر افسر محمد حسین ملک اپنے ایک کالم جو روزنامہ پاکستان کی 26-4-2013 اشاعت پذیر ہوا ۔ لکھتے ہیں کہ احمد رضا قصور ی ایک جوشیلے طالب علم لیڈر تھے وہ خود بھی بھٹو کے پرستاروں میں شامل تھے۔ وہ 1970ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے ۔احمد رضا قصور ی اپنی عادت اور نڈر پن کی وجہ سے پارٹی میں بہت جلد مشہور ہوگئے ۔ اس زمانے میں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔ احمد رضا قصور ی مختلف معاملات پر ان سے اختلاف کی جرات کر لیا کرتے تھے اور کھلم کھلا تنقید بھی اور یہ بھی ساتھ کہتے کہ تنقید ہی جمہوریت کا اصل حسن ہے ۔وہ ذوالفقار علی بھٹو کو جمہوریت کا چیمپئن کہا کرتے تھے اور خوب زور دار آواز میں پارٹی اجلاس میں انہیں میرے چمپیئن ذرا غور سے سینئے ٗ یہ فقرے ایسے تھے جنہیں وہ بار بار دھراتے تھے ۔دو چار مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ڈانٹا بھی ۔ لیکن وہ اپنی بات پوری کرکے چھوڑتے ۔غلام مصطفے کھر جو اس وقت گورنر پنجاب تھے۔ انہوں نے احمد رضا قصور ی کو بلا کر کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی ۔لیکن احمد رضا قصور ی نے صرف ایک سال میں ہی بھٹوکی ناک میں دم کردیا۔بھٹو دور میں ہی ایک نیم عسکری تنظیم ایف ایس ایف بنائی گئی ٗ اس تنظیم کو وسیع اختیارات حاصل تھے ۔یہ کسی کو بھی حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیتے پھر ان لوگوں کاکہیں پتہ نہ چلتا ۔کئی مقدمات ہائی کورٹ میں حبس بے جا کے ہوئے لیکن ایف ایس ایف کے زیر حراست افراد کا پتہ نہ چلا ۔عام طور پر یہ مشہور تھا کہ یہ فورس حراست میں لیے گئے افراد کو یا توموت کے گھاٹ اتار دیتی ہے یاپھر انہیں ہمیشہ کے لیے غائب کردیاجاتاہے ۔ حالت یہ تھی کہ پولیس کے ضلعی انچارج ٗ ایس پی اور ڈویڑن انچارج ٗ ڈی آئی جی بھی اس فورس کے ایک عام انسپکٹر اور سب انسپکٹر سے ڈرتے تھے ۔ویسے بھی اس فورس کے پا س جدید اسلحہ ٗ جدید گاڑیاں ٗ فون ٹیپ کرنے کے جدید آلات اور دوسری ایسی تمام چیزیں موجود تھیں جو بطور ایک خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی یا انٹیلی جنس اداروں کے علاوہ کسی اورکے پاس نہیں تھی ۔یہ فورس پورے ملک میں خوف کی علامت بن چکی تھی اور اس کی اکثریت بدنام زمانہ پولیس افسر وں کی تھی ۔جنہیں کئی گناہ زیادہ تنخواہ اور مراعات کے ساتھ یا ڈیپوٹیشن پر ایف ایس ایف میں شامل کیاگیاتھا ۔
جب احمد رضا قصور ی پر تمام دوسرے حربے ناکام ہوگئے تو وزیر اعظم بھٹو نے اس فورس کو حکم دیاکہ احمدرضا قصور ی کا پتہ صاف کردیاجائے ۔۔چنانچہ بھٹو کے حکم پر یہ فورس احمد رضا قصور ی کے پیچھے لگ گئی اور اس کی خفیہ نگرانی شروع کردی ۔ ایک رات جب وہ اپنے والد ٗ والدہ اوررشتہ داروں کے ہمراہ شادمان لاہور کے علاقے میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے آرہے تھے تو ایف ایس ایف کی ایک گاڑی میں سوار کچھ لوگوں نے ان کا پیچھا کیا ۔ شادی ختم ہوئی اور احمد رضاقصوری اپنے خاندان کے ہمراہ واپس جارہا تھا تو راستے میں چھپے ہوئے اہلکاروں نے اس کار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں احمد رضا قصور ی کے والد نواب محمد احمد خان شدید زخمی ہوگئے اور بعض رشتہ داروں کو بھی گولیاں لگیں۔نواب صاحب کو شدید زخمی حالت میں رات ایک بجے یوسی ایچ ہسپتال لے جایاگیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ۔چنانچہ احمد رضا قصوری کے ایما پر ذوالفقار علی بھٹو اور ایف ایس ایف کے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا ۔اس وقت تھانے میں اصغر خان عرف ہلاکو خان پولیس افسر بطور ڈی ایس پی تعینات تھا اس نے ایف آئی آر کاٹی اور اس کی نقل احمد رضا قصوری کو دے دی اور میڈیا والوں کو بتایا کہ فی الحال ایف آئی آر کو سربمہر کردیاگیا ہے ۔یہ وہی ایف آئی آر تھی جو 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگنے کے بعد مقدمہ قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کا باعث بنی۔شروع میں جسٹس کے ایم صمدانی نے بھٹو کی ضمانت بھی لی لیکن قائمقام چیف جسٹس مولوی مشتاق احمد نے یہ ضمانت منسوخ کردی اور قتل کے مقدمے کی سماعت شروع کردی ۔
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی ایف ایس ایف ختم کرکے اس تنظیم کے اہلکاروں کو چاروں صوبوں کی پولیس میں کھپا دیا۔ایف ایس ایف کے پانچ اہلکاروں کو وعدہ معاف گواہ بنالیا گیا ۔جنہوں نے ہائی کورٹ میں اپنے جرم کااقرار کرلیا اور بتایا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر گولیاں چلائیں اور اسی کے نتیجے میں احمد رضا قصور ی کے بجائے ان کے والد کی موت واقع ہوئی ۔اس مقدمے میں بھٹو سمیت ان پانچ میں سے چار اہلکاروں کو بھی پھانسی کی سزا سنائی گئی ۔
ممتاز تجزیہ نگار اور سنئیر رپورٹرمحمد شریف کیانی جو ماضی میں ماہنامہ قومی ڈائجسٹ میں عدالتی رپورٹنگ کیاکرتے تھے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کے نشیب و فراز اور کوٹ لکھپت جیل میں ہونے والے واقعات کے علاوہ ڈسٹرکٹ سنٹرل جیل راولپنڈی میں منتقلی سے پھانسی گھاٹ تک کے حالات کچھ اس انداز سے قلم بند کیے ہیں کہ لمحہ لمحہ حالات پرمشتمل یہ کہانی پاکستانی تاریخ کاایک اہم راز قرار دی جاسکتی ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ 11نومبر 1974ء کو وائٹ ہاؤس ملتان (جو اس وقت کے گورنر پنجاب نواب صادق حسین قریشی کی عظیم الشان کوٹھی کا نام ہے )ذوالفقار علی بھٹو اور ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود وائٹ ہاؤس میں پہنچے ۔مسعود محمود وائٹ ہاؤس میں قیام کی بجائے ایک ریسٹ ہاؤس میں جاکر سو گیا ۔جبکہ مسٹر بھٹو نے رات وائٹ ہاؤس میں ہی بسر کی۔صبح سویرے سرہانے رکھے ہوئے فون کی گھنٹی بجی تو مسعود محمود نے ریسور اٹھا کر کان سے لگایا ۔ لائن کے دوسری جانب وزیر اعظم بھٹو ان سے مخاطب تھے ۔ انہوں نے چھوٹتے ہی ایک بھاری بھرکم غلیظ گالی دی اور کہا تمہارے اس میاں عباس نے تو بیڑا ہی غرق کردیا ہے ۔اسے کہا تھا کہ احمد رضاقصوری کو قتل کرے ٗ اس بے وقوف نے اس کے باپ کو مارڈالا ۔تم فورا یہاں آؤ ۔اتنا کہہ کر بھٹو نے فون بند کردیا۔مسعود محمود ہاتھ میں پکڑے ریسیور کو گھورنے لگا۔اس لمحے اسے مسٹر بھٹو سے اپنی چند ماہ پہلے کی ایک ملاقات یاد آئی ۔جس میں مسٹر بھٹو نے کہاتھا میں احمد رضا قصوری کے گستاخانہ رویے سے تنگ آچکاہوں ۔میاں عباس ڈائریکٹر آپریشنز اس کی سرگرمیوں سے آگاہ ہے ٗ اسے احمد رضا قصوری سے نجات حاصل کرنے سے متعلق پہلے ہی ہدایات دی جاچکی ہیں۔ اس سے کہو کہ وہ اپنا کام جلدی کرے اور مجھے احمد رضا قصوری کی لاش یا پٹیوں میں لپٹا ہوا اس کا گولیوں سے چھلنی جسم پیش کیاجائے ۔مسعود محمود نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے تو مسٹربھٹو سیخ پا ہوگئے اورگرجتے ہوئے بولے میں تمہاری یا میاں عباس کی طرف سے کوئی بیہود گی برداشت نہیں کروں گا ۔جب مسعود محمود نے میاں عباس کو مسٹر بھٹو کے حکم سے آگاہ کیا تو جواب ملا گھبرائیے نہیں مسٹر بھٹو کے حکم کی تعمیل ضرور ہوگی ..... اور آج شاید اسی حکم کی تعمیل ہوئی تھی ۔ بہرکیف جب تیار ہوکر مسعود محمود وائٹ ہاؤس پہنچے تو وہاں مسٹر بھٹو اور نواب صادق حسین قریشی بیٹھے کافی پی رہے تھے ۔مسعود محمود کو دیکھتے ہی مسٹر بھٹو نے بڑے معنی خیز انداز میں آنکھ ماری اور نواب محمد خاں کے قتل کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا جیسے وہ پہلی بار مسعود محمود کے سامنے اس موضوع پر بات کر رہے ہیں ۔"میں نے سنا ہے کہ احمد رضا قصوری کے باپ کو لاہور میں کسی جگہ قتل کردیاگیا ہے ۔" جی ہاں میں نے بھی سنا ہے ۔ مسعود محمود ۔
اس وقت محمد حنیف رامے وزیر اعلی پنجاب کے منصب پر فائز تھے جنہوں نے احمد رضا قصوری کے والد کی ہلاکت اور فائرنگ کے واقعے کی خبر اخبارات میں شائع ہوتے ہی اس حادثے کی عدالتی تحقیقات ہائی کورٹ کے جج سے کروانے کا حکم دے دیا ۔اس مقصد کے لیے مسٹر جسٹس شفیع الرحمن کا نام تحقیقاتی کمیشن کے لیے منتخب کیاگیا ۔اس عدالتی کمیشن کا دائرہ کار محدود تھا اور ایک ماہ کے اندر اسے رپورٹ بھی تیار کرنی تھی ۔ مسٹرجسٹس شفیع الرحمن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ شادمان چوک میں ہونے والی واردات اور تقریبا تین ماہ قبل اسلام آبا د میں ہونے والی واردات میں ایک ہی قسم کا اسلحہ استعمال کیاگیا ۔اس لیے ان دونوں وارداتوں کے پس پردہ عزائم بھی ایک ہی جیسے ہیں ۔ ان وارداتوں کومنظم بھی ایک ہی انداز میں کیاگیا تھا ۔اگرچہ ارتکاب کرنے والے مختلف تھے ۔اس حادثے کی وجہ سیاسی یا پیپلز پارٹی سے مسٹر احمد رضا قصوری کی علیحدگی بھی ہوسکتی ہے ۔اس کے پیچھے جائیداد کا جھگڑا یا کوئی ذاتی دشمنی کار فرما نہیں ہے۔اس جرم کاارتکاب کرنے والے بڑے منظم ٗ پوری طرح مسلح اور بھرپور وسائل رکھتے تھے ۔پولیس کی تحقیقات اور طرز عمل کے بارے میں مسٹرجسٹس شفیع الرحمن نے لکھا کہ پولیس اہلکاروں نے تعاون کرنے کی بجائے کئی مراحل میں رکاوٹیں ڈالیں تفتیشی افسر ڈی ایس پی عبدالاحد اور ایس ایس پی نے اس تحقیقات کی جو نگرانی کی وہ بھی ناتمام اور ادھوری تھی ۔یہ دونوں نہ تو واردات میں استعمال ہونے والے ہتھیار کی نوعیت کا پتہ چلا سکے اور نہ ہی انہوں نے کوشش کی ۔اس ڈرامے کے ڈراپ سین میں وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو نے خصوصی دلچسپی لی۔ ایک ایک لمحے کی رپورٹ انہیں ملتی رہی ۔"
پھر مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پرائم منسٹر ہاؤس سے جو دستاویزات ملیں ان سے مقدمے میں مسٹر بھٹو کی دلچسپی صاف ظاہر ہوتی تھی ۔ذرا سینئے یہ دستاویزات کیاکہانی سناتی ہیں ۔قتل کی واردات تھانہ اچھرہ کی حدود میں ہوئی ٗ وہیں رپورٹ درج ہوئی اور ابتدائی تفتیش اچھرہ سرکل کے ڈی ایس پی مسٹر عبدالاحد کرتے رہے۔ بعد ازاں پراسرار حالات میں ان کی موت واقع ہوگئی ۔7 مارچ 1977ء کو وزیراعلی پنجاب محمد حنیف رامے نے عدالتی کمیشن کی رپورٹ وزیر اعظم ہاؤس بھجوائی ۔یہ رپورٹ جب مسٹر بھٹو کوپیش کی گئی تو مسٹر بھٹو نے اس رپورٹ پر وزیراعظم ہاؤس کے چیف سیکورٹی آفیسر سعید احمد خاں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ "میں نے تمہیں جو کچھ سمجھایا تھا اس کا فائدہ ؟ تم نے کچھ نہیں کیامجھ سے دوبارہ بات کرو۔"
وقت نے کروٹ بدلی ۔ بھٹو حکومت ختم ہوئی اور اس کی جگہ مارشل لاء نے لے لی ۔ ایف آئی اے کو ایف ایس ایف اور اس کے افسروں کی کارکردگی کی تحقیقات کا حکم ملا ۔ سیاسی قتل کی وارداتوں ٗ اغوا ٗ جلسے جلوس درہم برہم کرنے کے واقعات کی چھان بین شروع ہوئی تو لاہور ریلوے اسٹیشن پر بم کا قصہ بھی سامنے آیا ۔ یہ واقعہ مارچ 1977ء میں پیش آیا تھا ۔ائیر مارشل(ر) اصغر خاں کی آمد پر ریاض نامی ایک شخص نے بم چلانے کی ناکام کوشش کی تھی۔جسے پولیس نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا وہ ایف ایس ایف کا تنخواہ دار ایجنٹ نکلا ۔ اس سے پہلے کہ مقدمہ عدالت میں جاتا اور اسے سزا ملتی ٗ بعض حکام نے مداخلت کرکے ریاض کو چھڑوالیا اور بات آئی گئی ہوگئی ۔اسی واقعے میں ایف ایس ایف کے ایک انسپکٹر غلام مصطفی کانام بھی لیا گیا۔ جب ایف آئی اے نے از سرنو تفتیش کی تو اس نے ایف ایس ایف کا سارا کچا چٹھا اگل دیا اور کئی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھادیا ۔ اس ے بیان کی روشنی میں پیش رفت ہوئی تو کیس کے ڈانڈے نواب محمد احمد خاں کے قتل سے جاملے ۔تفتیش کا دائرہ پھیلتے پھیلتے ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر آپریشنز میاں عباس اور ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود تک جا پہنچا ۔جنہوں نے وزیر اعظم بھٹو کے ایما پراحمد رضا قصوری کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا مگر احمد رضا قصوری کی بجائے ان کے والد قتل ہوگئے ۔یہ آپریشن انسپکٹر غلام حسین ٗ انسپکٹر غلام مصطفی ٗ سب انسپکٹر ارشد اقبال اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر افتخار احمد نے انجام دیا۔وقوعہ کی رات یہ سب لوگ شادمان چوک گول چکر کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے ۔ بارہ بجے کے قریب احمد رضا قصوری کی گاڑی وہاں سے گزری توارشد اقبال نے سگنل فائر کیا اس کے بعد غلا م حسین اوراس کے ساتھیوں نے خود کار اسلحے سے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔
جب یہ پارٹی احمد رضا قصوری کو قتل کرنے میں ناکام رہی تو اعلی افسروں نے جھنجلا کر اس میں شامل لوگوں کو ختم کرنے کاپروگرام بنایا۔ چنانچہ ایک دن ارشد اقبال پر فائرنگ کی گئی ٗوہ خو ش قسمتی سے بچ نکلا لیکن اس کا بھائی نذیر اقبال جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔جب آگ مسعود محمود اور میاں عباس کے دامن تک پہنچی تو انہوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کرلیا اور کہا کہ یہ وقوعہ معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر عمل میں آیا تھا۔جنہو ں نے انہیں ذاتی طور پر حکم دیا تھا کہ احمد رضا قصوری کو راستے سے ہٹا دیا جائے ۔ کیس کی مختلف کڑیاں ملائی گئیں تو قرائن اور شہادتوں نے مسٹر بھٹو کے سر سے وزیر اعظم کا تاج اتار کر گلے میں مجرم اعظم کا طوق ڈال دیا۔
3 ستمبر 1977ماہ رمضان کامہینہ اور سحری کا وقت تھا لیکن کوٹھی کے مکین ابھی محو خواب ہی تھے ۔ ارد گرد کاماحول خواب آلود تھا۔ دور کچھ سائے حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ یہ بڑی خاموشی سے آگے بڑھ رہے تھے ۔70نمبر کوٹھی کے سامنے پہنچ کر انکے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے ۔پھر گیٹ سے گزر کر وہ اندر پہنچے چاروں طرف گہرا سناٹا تھا ۔چند آدمی دروازہ کھول کر ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ معزول وزیر اعظم مسٹر بھٹو کی خوابگاہ ہے۔ انہیں نیند سے بیدار کیاگیا ٗ لال پیلے ہوتے ہوئے بولے کون ہیں آپ لوگ۔ ؟
پولیس۔ نواب محمداحمد خان کے مقدمہ قتل میں آپ کی گرفتاری مطلوب ہے ٗ ہم آپکوگرفتار کرنے آئے ہیں ۔بھٹو نے کہا کوئی وارنٹ ؟ ۔ یہ لیجیئے ایک شخص نے جو چہرے مہرے اور وضع قطع سے کوئی افسر لگتا تھا حکم نامہ گرفتاری ان کے چہرے کے سامنے لہراتے ہوئے کہا ۔
مسٹر بھٹو پر سکتہ طاری ہوگیا چندلمحوں تک خالی نظروں سے اس پر وانہ گرفتاری کوگھورتے رہے پھر چونک کر اٹھے اورکپڑے تبدیل کرکے تیار ہوگئے ۔اس وقت صبح کے ساڑھے چار بج چکے تھے۔چندگھنٹے بعداچھرہ لاہور سے آنے والی پولیس پارٹی کے ہمراہ مسٹر بھٹو ایک خصوصی طیارے میں بیٹھ کر محو پرواز تھے ۔ یہ وہی فالکن طیارہ تھا جس میں کبھی وہ بڑی شان اور کروفر سے سفر کیاکرتے تھے۔لاہور پہنچنے کے بعد انہیں کینٹ کی ایک کوٹھی میں نظر بند کردیاگیااور پولیس نے اسسٹنٹ کمشنر کینٹ سے سات روز کا جسمانی ریمانڈ لے لیا۔6 ستمبر کو مسٹر ایم بی زمان نے لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس کے ایم صمدانی کی عدالت میں مسٹر بھٹو کی درخواست ضمانت پیش کی ۔ 12 ستمبر کو مسٹر بھٹو کوضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ چند دن کے بعد حکومت نے ضمانت کی منسوخی کی درخواست ہائی کورٹ میں دائر کی جس کی سماعت چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں فل بینج نے کی۔ جس نے دو تین مختلف سماعتوں کے بعد مسٹر بھٹو کی ضمانت منسوخ کردی اور انہیں باضابطہ طور پر قتل کیس میں لاڑکانہ سے دوبارہ گرفتا ر کرلیا گیا ۔
11 اکتوبر 1977ء کا دن اس اعتبار سے تاریخی تھا کہ اس دن عدالت عالیہ میں مسٹربھٹو کے خلاف قتل کے الزام میں فرد جرم عائد کی جارہی تھی ۔دس بجے عدالت کی کارروائی شروع ہوئی ملزم بھٹو کے وکیل نے بعض اعتراضات اٹھائے ۔ سیپشل پبلک پراسیکوٹر مسٹر ایم انور نے ان کا مدلل جواب دیا اس پر یہ اعتراضات مسترد کردیئے گئے اور ملزموں کے خلاف فرد جرم عائد کردی گئی ۔
سب سے پہلے ملزم بھٹو کو فرد جرم سے آگاہ کیاگیا کہ ان کے خلاف 09B,120,307/109,301,302/109کے تحت فر م جرم عائد کی گئی۔ جس کے مطابق انہوں نے فیڈرل سیکورٹی فورس کے سابق ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود کے ساتھ مل کر احمد رضا قصور ی کے قتل کی سازش کی۔ جس کے نتیجے میں انکے والد نواب محمداحمد خان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ بھٹو نے کہا میں مجرم نہیں ہوں ۔لیکن ایف ایس ایف کے تین جونیئر افسروں نے صحت جرم سے انکار کے ساتھ ساتھ واردات قتل کااعتراف کیااور کہا کہ ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنے افسران بالا کے دباؤکے تحت کیا ۔ ہم مجبور تھے اور ہمیں اپنی جان کا خطرہ تھا۔
فرد جرم عائد ہونے کے بعد مسٹربھٹو کو ایک مجرم کی حیثیت سے ڈسٹرکٹ جیل کوٹ لکھپت لاہور لایاگیا تو وہ ڈیوڑھی میں پہنچ کر رک گئے ۔ دائیں طرف چھت کوجانے والی سیڑھیاں نظر آئیں ٗ بالائی منزل پر پہلے ریکارڈ روم تھا۔ بعد میں مسٹر بھٹو کے حکم پر سپیشل ٹریبونل کے لیے ہال خالی کروالیا گیا ۔جہاں پنجاب سپیشل ٹریبونل کے ارکان مسٹر بھٹو کے سیاسی مخالفین اور باغی ساتھیوں کے مقدمات کی سماعت کیا کرتے تھے ۔مسٹر بھٹو نے لمحہ بھر کے لیے چھت کی طرف گھورکر دیکھا پھر بھاری بھرکم آہنی در وازے پر نظر ڈالی اور بے اختیار دل بھر آیا ۔آنکھوں سے آنسو نکل آئے انہوں نے مضبوطی سے ہونٹ بھینچ لیے اور تیزی سے اندرونی دروازے کی طرف قدم بڑھادیئے ۔یہ وہی جیل تھی جہاں قومی اتحاد کے کئی سرکردہ لیڈر اور مسٹربھٹو کے باغی ساتھی ان کے عہد اقتدار میں قید رہے ۔ ان کی ڈاڑھیاں نوچی گئیں ٗ سخت گرمیوں میں انکے کمروں کی بجلی بند کردی جاتی اور سخت سردی میں انہیں رات کو کھلے دروازوں والے یخ بستہ برآمدے میں سونے پر مجبور کیاجاتا۔تنگ کرنے کے لیے لوہے کے دروازوں اور پلنگوں میں بجلی کی رو چھوڑ دی جاتی ۔ راتوں کو نیند سے محروم رکھاجاتااور انکے سرہانے زور زور سے کنستر بجائے جاتے ۔ ایک بار جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے ان بیہودگیوں کے خلاف دبے لفظوں میں احتجاج کیا تو مسٹر بھٹو کے وزیر جیل خانہ جات نے ان کی اتنی بے عزتی کی کہ انہیں دل کا دورہ پڑ گیا ۔
جیل میں قیدی کی شناخت اس کے اصل نام سے زیادہ قیدی نمبر کے حوالے سے ہوتی ہے ۔ ڈیوڑھی کا اندرونی دروازہ عبور کرنے کے بعد مسٹر بھٹو پر بھی اس نمبر کاٹھپہ لگ چکا تھا ۔ ان کانمبر 1772تھا اب انہیں نام کی بجائے اس نمبر سے ہی پکارا جانے لگا ۔قیدی نمبر 1772کو برسوں سے غیر ملکی پانی پینے کی عادت تھی ٗ یہ پانی منرل واٹر کہلاتا تھا جو سربند ڈبوں میں بیرون ملک سے بطور خاص منگوایا جاتا ۔جیل میں آنے کے بعد اسی غیر ملکی پانی کی فرمائش کی گئی۔ چند دن یہ پانی فراہم کیاجاتارہا پھر انہیں کہہ دیاگیا کہ وہ جیل کا ہی پانی استعمال کریں جس طرح دوسرے قیدی کرتے ہیں ۔لاہور ہائی کورٹ میں فرد جرم عائد ہونے کے بعدسماعت کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔جس کی تفصیل اختصار کی وجہ سے یہاں درج نہیں کی جارہی ۔
18 مارچ 1978ء آٹھ بج کر بیس منٹ پر لاہور ہائی کورٹ فل بینچ کے فاضل ارکان کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ۔چند منٹ تک کمرہ عدالت میں خاموشی چھائی رہی ٗجیسے کائنات کی گردش تھم گئی ہو ۔ پھر اچانک اس سناٹے میں چیف جسٹس مسٹر جسٹس مولوی مشتاق حسین کی آواز گونجی ۔ انہوں نے پیراگراف نمبر 619پڑھنا شروع کردیا۔قیدی نمبر 1772ذوالفقار علی بھٹو ٗ میاں عباس ٗ غلام مصطفی ٗ ارشد اقبال اور رانا افتخار کے لیے سات سات سال قید بامشقت اور سزائے موت ۔
فل بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ملزمان کے خلاف تمام الزامات مکمل طور پر ثابت ہوچکے ہیں ۔احمد رضا قصوری کو موت کے گھاٹ اتارنے کی سازش ٗ نواب محمداحمد خان کے قتل کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی ۔ مقدمے کا بڑا ملزم (بھٹو )ہی قتل کی سازش کا اصل ملزم ہے اس نے ایف ایس ایف کو ایک ایسے شخص سے بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا جس سے اس کی ذاتی دشمنی تھی ۔اس طرح اس نے فورس کوکرائے کا قاتل اور جرائم پیشہ بنادیا ۔
مکمل فیصلہ 405صفحات پر مشتمل تھا اس کے 627پیراگراف ہیں ۔ مسٹرجسٹس مولوی مشتاق حسین نے اس کے آخری پیرے کمرہ عدالت میں پڑھے ۔ فیصلہ مسٹر جسٹس آفتاب حسین نے تحریر کیا اور بینچ کے باقی ارکان چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین ٗ مسٹر جسٹس ذکی الدین پال ٗ مسٹر جسٹس محمد شمس الحق قریشی اور مسٹر جسٹس گلباز خان نے اس سے مکمل اتفاق کیا ۔ قتل اور سازش کے بڑے ملزم بھٹو کو پچیس ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی ۔ یہ رقم مقتول کے خاندان کو ادا کی جائے گی ۔عدم ادائیگی کی صورت میں مزید چھ ماہ قید سخت بھگتنا ہوگی ۔مسعود محمود کو وعدہ معاف گواہ بننے پر معافی دے دی گئی ۔فیصلہ سننے کے بعد قیدی نمبر 1772کی حالت غیر ہوگئی وہ دیر تک سکتے کی حالت میں کھڑا رہا ۔ پھر پولیس کے ہمراہ جیل روانہ ہوگیا ۔جیل پہنچ کر قیدی نمبر 1772 کو سزائے موت والے مجرمو ں کی کوٹھڑی میں منتقل کردیا گیا ۔
25 مارچ 1978ء کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی گئی ۔ تو قیدی نمبر 1772 کو بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی پہنچا دیاگیا۔مختلف تاریخ پر قیدی نمبر 1772 اور ان کے وکیل یحی بختیار کی جانب سے دلائل جاری رہے ۔ بالآخر 6 فروری 1979ء کو فیصلہ سنانے کا وقت آپہنچا۔ گیارہ بج کر پانچ منٹ پر فاضل جج صاحبان مسٹر جسٹس عبدالحلیم ٗ مسٹر جسٹس محمداکرم ٗ مسٹر جسٹس ایس انوار الحق ٗ مسٹر جسٹس دراب پٹیل اور مسٹر جسٹس صفدر شاہ عدالت میں آئے ۔سب سے آخر میں چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے قدم رکھا ۔کمرہ عدالت میں موجودلوگوں نے اپنے سانس روک لیے اور فیصلہ سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھ گئے ۔ اگلے ہی لمحے کمرہ عدالت کے گمبھیر سناٹے میں چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی آواز گونجی ۔انہوں نے آرڈر آف دی کورٹ پڑھنا شروع کیا۔ جو صرف تین پیرا گراف پر مشتمل تھا ۔ چیف جسٹس کو اسے پڑھنے میں بمشکل دومنٹ لگے ۔ کثرت رائے سے اپیلیں مسترد کردی گئیں ۔ پہلے چیف جسٹس نے آرڈر آف دی کورٹ پر دستخط کیے پھر باقی ججز صاحبان نے دستخط کیے ۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے مقدمے کی سماعت آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے کی ہے ۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ مسٹر بھٹو نے ایف ایس ایف کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جو وزیر اعظم کے اختیارات کا شیطانی استعمال ہے۔ مقدمہ کے محرکات نہ سیاسی ہیں اور نہ اس کے پیچھے کوئی عالمی سازش کارفرما ہے ۔ ہائی کورٹ نے جو فیصلہ کیا وہ شہادت اور قانون کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد صحیح پایاگیا ۔( رپورٹ : محمد شریف کیانی قومی ڈائجسٹ لاہور مارچ 1979)
فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی جسے 14 فروری 1979ء کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیاگیا۔ 24 فروری کو سماعت کا آغا ز ہوااور 18 مارچ 1979ء کو سماعت مکمل ہوگئی ۔ چیف جسٹس مسٹر جسٹس انوار الحق نے ہفتے کے روز صبح دس بجے سپریم کورٹ کے مین کورٹ روم میں فیصلے کااعلان کیا۔ جس کے مطابق نظرثانی کی اپیل مسترد کردی گئی ۔نظرثانی کی اپیل مسترد ہونے کے بعد قیدی نمبر 1772کے کمرے سے آرام و آسائش کی تمام سہولتوں ہٹا لی گئیں ۔جن میں نوار کا پلنگ ٗ میز ٗ کرسی ٗ ریفریجٹر ٗاٹیچی کیس ٗ شیو کا سامان ٗ قلم ٗ پنسل ٗ کاغذ وغیرہ شامل تھے ۔قیدی سے ذاتی استعمال کے کپڑے واپس لے کر پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کے کپڑے فراہم کردیئے گئے جن میں بٹن اور ازار بند نہیں ہوتا تاکہ قیدی اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے یا خود کشی نہ کرسکے ۔موسم کے مطابق یہ لباس ایک نیکر ٗ بنیان اور ٹوپی پر مشتمل تھا۔ اتنی رعایت ضرور برتی گئی کہ انہیں یہ لباس پہننے پر مجبور نہیں کیاگیا۔ قیدی نمبر 1772نے سونے کے لیے گدا زمین پر ہی بچھا لیا ۔اس کے علاوہ قیدی کے کمرے سے شیو کا سامان بھی اٹھالیاگیا کیونکہ وہ خود ہی اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہا تھا ۔ مسٹر بھٹو کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی ۔اسی دوران عبد الحفیظ پیرزادہ کے ساتھ گفتگو کے دوران قیدی کی خواہش تھی کہ عبدالحفیظ پیرزادہ اپنی جانب سے صدر پاکستان کو رحم کی اپیل کریں ۔لیکن پیرزادہ کا خیال تھا کہ اپیل کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ عالمی دباؤ کے آگے جنرل ضیاء الحق زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے اور اندرونملک میں ہنگاموں کے خطرے کے پیش نظر قیدی کی سزا میں یقینی طور پر کمی کردی جائے گی ۔وقت تیزی سے گزرتا رہا ۔ 31 مارچ کو رحم کی اپیل کا وقت بھی گزر رہا تھا۔اب آخری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔پھر قیدی کے ایما پر حفیظ پیرزادہ نے دفعہ 45 کے تحت صدر مملکت کے نام ایک درخواست دے دی۔ یہ درخواست ایک خصوصی نمائندے نے رات نو بجے صدر کے سیکرٹریٹ میں جمع کروائی ۔دوسری جانب پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے بھی اسی روز صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق سے مسٹر بھٹو کے لیے رحم کی اپیل کردی۔بھٹو کی جان بخشی کی اپیل کرنے والوں میں ان کی سوتیلی بہن بیگم شہر بانو امتیاز بھی شامل تھیں ۔2 اپریل کو جیل حکام نے بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اطلاع بھجوائی کہ وہ آکر مسٹر بھٹو سے ملاقات کرجائیں ۔ہوسکتا ہے یہ ان کی آخری ملاقات ہو لیکن مسٹر بھٹو کو یقین نہیں تھا ۔ وہ سمجھتے رہے کہ جیل حکام انہیں خوف زدہ کرکے ان کے اعصاب توڑنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے دستخطوں سے رحم کی اپیل کروائی جاسکے ۔اس خوش فہمی میں جہاں بھٹو کے دوستوں کا عمل دخل تھا وہاں مسٹر رنگون والا کا علم دست شناسی بھی شامل تھا ۔مسٹر رنگون والا کے بھٹو فیملی سے پرانے مراسم تھے اور انہیں دست شناسی اور علم نجوم سے شغف تھا ۔10جنوری 1970ء کا ذکر ہے کہ مسٹر بھٹو سے ان کی راولپنڈی کے ہوٹل میں ملاقات ہوئی۔ مسٹر بھٹو نے ان سے پوچھا بھئی رنگون والا ۔ یحی خان کب رخصت ہوگا اور ہمیں اقتدار کب ملے گا ؟رنگون والانے بھٹو کا ہاتھ دیکھا اور کچھ جمع تفریق کرنے کے بعد کہا میرے حساب کے مطابق ڈیڑھ سال سے پہلے آپ کو حکومت نہیں مل سکتی ۔حسن اتفاق سے مسٹر رنگون والا کی یہ پیشین گوئی درست نکلی جس سے بھٹو معتقد ہوگئے ۔مختلف اوقات میں ملاقاتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ 1976ء کانیا سال شروع ہوگیا ۔ رنگونوالا نے مسٹر بھٹو کو بتایا کہ آپ کا ستارہ گردش میں آنے والا ہے ٗ عجب نہیں کہ آپ کواقتدار سے الگ ہونا پڑے ۔ مسٹر بھٹو کو یہ بات پسند نہ آئی اور وہ ناراض ہوگئے مسٹر رنگوان والا کو اپنی جان بچانی مشکل ہوگئی ۔پھر جب 5 جولائی 1977ء کو فوج نے اقتدار سنبھالا اور مسٹر بھٹو نواب محمداحمد خان قتل کیس میں گرفتار ہوئے تو ایک بار پھر رنگون والا کو تلاش کرکے بھٹو کے پاس لے جایاگیا ۔رنگون والا نے پھر بھٹو کا ہاتھ دیکھا اور تھوڑی سی جمع تفریق کے بعد یقین دلایا کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو پھانسی نہیں لگا سکتی ۔آپ کی موت کم ازکم پھانسی سے نہیں ہوگی ۔اس پیشین گوئی نے بھٹو کے اعتماد میں حد درجہ اضافہ کررکھا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کو پھانسی کی سزا نہیں دی جاسکتی ۔
بہرکیف آخری ملاقات میں جب بے نظیر بھٹو ٗ رخصت ہوتے ہوئے زار و قطار رو رہی تھیں تو بھٹو نے کہا گبھراؤ نہیں یہ مجھے ہاتھ نہیں لگاسکتے ۔ مجھے ڈراکر معافی نامہ لکھوانا چاہتے ہیں۔اس اعتماد کی ایک جھلک ان کی اپنی کتاب "اگر مجھے قتل کردیاگیا"میں بھی ملتی ہے اس کی چند سطریں ملاحظہ ہوں ۔ مسٹربھٹو اپنی اس کتاب میں رقم طراز ہیں "میں ایک قوم بنانے کے لیے پیداہواتھا عوام کی خدمت کے لیے پیدا ہواتھا ٗ میں موت کی کوٹھڑی میں سسک کر دم توڑنے کے لیے پیدانہیں ہوا اور نہ کسی چالاک انسان کی دشمنی کانشانہ بن کر پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے لیے پیدا ہواہوں ۔"
مسٹر بھٹو سمیت نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل کے تمام مجرموں کی جاں بخشی کی اپیلیں حتمی طور پر مسترد ہوچکی تھیں ۔ فیصلہ کرلیاگیا تھا کہ سب سے پہلے بھٹو کو پھانسی دی جائے گی۔اس کے باوجود کہ پھانسی کے انتظامات شروع کردیئے گئے تھے لیکن تاریخ اور وقت کے معاملے میں غیر معمولی راز داری برتی جارہی تھی ۔لیکن حالات بتا رہے تھے کہ جلد کچھ ہونے والاہے ۔دن بھر ڈسٹرکٹ جیل میں سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئر راحت لطیف ٗ ڈپٹی کمشنر سعید مہدی ٗ کرنل رفیع ٗ ایس ایس پی جہاں زیب برکی اور آئی جی جیل خانہ جات کی آمدورفت اور اجلاس اور آخر میں جیل حکام سے ہر طرح کا ٹیلی فونی رابطہ منقطع ہوجانا ۔ یہ ساری باتیں ایک ہی سمت اشارہ کررہی تھیں ۔آخر وہ وقت نزدیک آپہنچا جس کی پیش گوئی مسٹر بھٹو کے ایک اور شکار ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے اپنی شہادت سے تین دن قبل اپنی ایک تقریر میں کی تھی۔ ڈاکٹر نذیر نے ڈیرہ غازی خان میں تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ ایوب خان کاانجام دردناک ہو ا ٗ یحی خاں کاانجام عبرت ناک ہوا ٗ لیکن بھٹو تیراانجام درد ناک ہوگا ٗ عبرت ناک بھی اور شرمناک بھی ۔یہ اور بات ہے کہ میں تمہارے انجام کو دیکھنے کے لیے زندہ رہوں یا نہ رہوں ۔
اسی روز لاڑکانہ سے 19میل دور واقع گاؤں میرپوربھٹو میں لاڑکانہ کا تحصیل دار مسٹر بھٹو کے چچاسردار نبی بخش بھٹو کے پاس آیا ان سے نو ڈیرو کے قریب گڑھی خدا بخش میں واقع بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان کے متعلق معلومات حاصل کیں اور درخواست کی کہ ساتھ چل کر وہ جگہ دکھائیں جہاں بھٹو کی قبر بنوانا پسند کریں گے ۔
سردار نبی بخش بھٹو یہ سن کر پریشان ہوگئے دوسروں کی طرح انہیں بھی یقین تھا کہ مسٹر بھٹو کو پھانسی نہیں ہوگی ۔
تارا مسیح ایک جلاد ہے جو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان کے ساتھ مسیحیوں کی بستی میں رہتا ہے ۔ اس کے تین بھائی ہیں اور تینوں ملک کی بیس جیلوں میں جلاد کے فرائض ہی انجام دیتے ہیں ۔یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے ٗ ان کے دادا پہاڑی مل نے یہ کام مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں شروع کیاتھا ۔ یکم اپریل کو بہاول پور میں اپناکام ختم کرنے کے بعد تارا مسیح ابھی ملتان پہنچا ہی تھا کہ لاہور سے اطلاع ملی کہ تارا کو فورا یہاں بھیج دو ۔ چنانچہ وہ اسی وقت ریل گاڑی میں سوار ہوکر لاہور پہنچا اور کوٹ لکھپت جیل میں اپنی آمد کی رپورٹ دی ۔ اسے دوبارہ جیل سے باہر جانے سے منع کردیاگیا اور کہاگیا کہ ایک ضروری کام ہے وہ یہیں موجود رہے ۔شام کے وقت راولپنڈ ی سے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات چوہدری نذیر اختر کا فون آیا انہوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی کہ تارا مسیح کو آج ہی راولپنڈی پہنچایاجائے۔ یہ دو اپریل کادن تھا۔تارا مسیح کو بتائے بغیر اس کام کے لیے لاہور سے پنڈی لے جانے کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدا گیا لیکن تارا مسیح نے ہوائی جہا زمیں یہ کہتے ہوئے سفر کرنے سے انکار کردیا کہ اسے ڈر لگتا ہے ۔ پھر ایک ہیڈوارڈن کے ہمراہ بذریعہ ویگن راولپنڈی بھجوایا گیا ۔اسے بستی میں جانے اور اپنے عزیزوں کو اطلاع دینے کی مہلت بھی نہ ملی ۔ تاریخ مسیح کو ابھی تک کچھ نہیں بتایاگیا کہ اسے راولپنڈی میں کیا کرنا ہے ۔تاہم اس کی نقل و حرکت کے بارے میں جس طرح رازداری اور احتیاط برتی جارہی تھی اس سے اسے کچھ اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ اسے کسی اہم شخصیت کو پھانسی دینی ہے ۔ 2 اور 3 اپریل کی درمیانی شب پچھلے پہر وہ ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کی ڈیوڑھی میں داخل ہوا تو اسے فورا ہی بڑے دروازے کے قریب ایک کوٹھڑی میں بند کردیاگیا اور ممانعت کردی گئی کہ وہ نہ کوٹھڑی سے باہر جائے اور نہ کسی کے سامنے آئے ۔
3 اپریل شام چار بجے کے قریب پولیس کے چند آدمی بھوسہ منڈی راولپنڈی میں واقع مسجد مولانا غلام غوث ہزاروی پہنچے اور وہاں کے خادم حیات محمد سے رابطہ کیا اور انہیں کہا گیا کہ ایک میت کو غسل دینے کے لیے وہ ساتھ چلیں ۔ وہ ان کے ساتھ ہولیے ۔ پولیس انہیں ساتھ لیے گھومتی رہی۔ کبھی انہیں تھانے میں بندکردیاجاتا تو کبھی ضلع کچہری کے کسی کمرے میں بٹھادیاجاتا ۔ رات نو بجے کے قریب انہیں تھانہ چھاؤنی لے جایا گیا وہاں انہیں ایک گھنٹہ انتظارکرنے کے بعد اسے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی پہنچادیاگیا۔
تارا مسیح اپنی کوٹھڑی میں لیٹا نیم غنودگی کے عالم میں نہ جانے کیا سوچ رہا تھا کہ کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نئے آدمی کو اندر لاکر بندکردیاگیا ۔ تارا مسیح نے آنکھ کھولی اور اس کے سراپا کا جائزہ لیا ۔ نووارد کے چہرے پر ڈاڑھی تھی ۔ تارا مسیح کو جاگتے دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھنے لگا۔ تمہیں پتہ ہے کس میت کو غسل دینا ہے ؟ شام چار بجے سے پولیس والے مجھے ساتھ لیے پھر رہے ہیں لیکن بتاتے نہیں کہ میت کہاں ہے ۔
دن کے ہنگامے سرد ہوئے اور شام کی تاریکی کائنات کی ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی تو جیل حکام دوبارہ مسٹر بھٹو کے پاس پہنچے ۔ سپرنٹنڈنٹ جیل نے ان سے کہا "آج رات آپ کو پھانسی دے دی جائے گی۔"مسٹر بھٹو منہ سے کچھ نہ بولے ٗ خاموشی سے ٹکٹکی باندھے سپرنٹنڈنٹ جیل کو گھورتے رہے ۔ ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی گھمبیر سنجیدگی دیکھی تو انہیں پہلی بار لمحہ بھر کے لیے محسوس ہوا کہ یہ خبر درست بھی ہوسکتی ہے تاہم اب بھی ان کا ردعمل یہی تھا کہ انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ڈاکٹر نے قاعدہ کے مطابق ان کاطبی معائنہ کیا اور حکام کو بتایا کہ مجرم کی صحت بالکل ٹھیک ہے ٗ اسے پھانسی دی جاسکتی ہے ۔سپرنٹنڈنٹ جیل اور دوسرے عہدے دار واپس جانے لگے تو مسٹربھٹو نے کہا مجھے شیو کا سامان فراہم کیاجائے ۔ انہوں نے کئی دن سے شیو نہیں کی تھی جس سے داڑھی کافی بڑھی ہوئی تھی ۔ مسٹربھٹو نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انگریز ی میں کہا "میں اس داڑھی کے ساتھ نہیں مرنا چاہتا۔"
انہوں نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ انہیں ایک جائے نماز اور تسبیح بھی فراہم کی جائے ۔یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اس طرح کی خواہش ظاہر کی ۔ ورنہ اس سے پہلے ایک موقع پر جب اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ مسٹر بھٹو نماز پڑھنے لگے ہیں تو انہوں نے جیل حکام سے نہایت سختی کے ساتھ اس خبر کی تردید کرنے کے لیے کہا ۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور ان میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی ۔ اس وقت انہیں قرآن پاک کا ایک نسخہ بھی فراہم کیاگیا لیکن کسی نے انہیں ایک دن بھی اس کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا۔ بہرکیف تمام مطلوبہ چیزیں انہیں فراہم کردی گئیں ۔ شیو بنائی پھر آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کسی قدر مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولے اب ٹھیک ہے ۔ جائے نماز کو انہوں نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ وہ اگلی صبح وہیں اور اسی حالت میں پڑی ہوئی ملی ٗ جہاں جیل کے عملے نے اسے رکھا تھا ۔ تسبیح البتہ مسٹربھٹو نے اٹھالی لیکن کچھ پڑھنے یا ورد کرنے کے بجائے انہوں نے اسے اپنے گلے میں ڈال لیا ۔
آج پہلی رات ہے جب شام کے کھانے کے بعد مسٹر بھٹو نے کافی پی نہ سگار سلگایا ۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ان کی کوٹھڑی میں موجود تھیں ۔ انہوں نے کھانا بھی معمول کی نسبت کم کھایا ۔ اور کھانے کے بعد چہل قدمی بھی نہیں کی۔وہ فورا فرش پر بچھے فو م کے گدے پر لیٹ جاتے ہیں ۔جب کوئی نگران ادھر سے گزرتا ہے ٗ وہ گردن گھما کر اسے دیکھتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل ہیں ۔ شام کو جیل حکام نے جب کہا کہ وہ اپنی وصیت تیار کرلیں تو انہوں نے کاغذ اور قلم مانگا اور لکھنا شروع کردیا۔ دوصفحے لکھ چکے تو نہ جانے کیا خیال آیا اور انہوں نے کاغذپھاڑ دیئے پھر مشقتی سے کہا انہیں جلادو۔ شاید ایک بار پھر یہ خیال غالب آگیا تھا کہ ان کے ساتھ ڈرامہ کیاجارہاہے اور اب یہ تحریر لکھواکر ان کے اعصاب کی شکستگی کااشتہار دینامقصود ہے۔ تاہم جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ٗان کے دل میں ایک بے نام سا خوف اور اندیشہ پیدا ہوتاجارہا تھا ۔
رات خاموش اور قدرے خنک تھی راولپنڈی میں ایک روز قبل بارش ہوئی تھی ۔ یہ اسی کی خنکی تھی جیل کی چاردیواری سے باہر خاموشی اور ویرانی کا راج تھا لیکن جیل کے اندر خلاف معمول رات کے اس وقت بھی غیر معمولی چہل پہل تھی ۔ جیل کے احاطے میں انتظامیہ ٗ پولیس اور محکمہ جیل کے بے شماراعلی افسر موجود تھے اور پھانسی گھر کے انتظامات کابار بار جائزہ لیا جارہاتھا ۔ زنانہ احاطے سے پھانسی گھر تک پورے راستے میں تقریبا دو سو گیس لیمپ جلا کر رکھ دیئے گئے تاکہ اگر بجلی اچانک چلی بھی جائے تو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ایک بج کر چودہ منٹ پر جیل کا ایک ذمہ دار افسر مسٹر بھٹو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور انہیں بتایا کہ ان کے نہانے کے لیے گرم پانی تیار ہے وہ اٹھ کر غسل کرلیں ۔ مسٹر بھٹو نیم غنودگی کے عالم میں گدے پر لیٹے ہوئے تھے ٗ سنی ان سنی کرکے چپکے سے لیٹے رہے ۔ تاہم ان کے دل کی دھڑکنیں بے اختیار تیز ہورہی تھیں اور یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں پہلی مرتبہ مکمل طور پر یقین ہوا کہ انکی زندگی کی گھڑیاں سچ مچ ختم ہونے والی ہیں اور اگلی صبح کا سورج دیکھنا انہیں نصیب نہیں ہوگا ۔ یہ سوچ کر ان کے اعصاب جواب دے گئے۔ ان پر سکتے کی سی حالت طاری ہوگئی ۔ دیکھنے والے ڈر گئے کہ کہیں ان کی زندگی کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔ یا انہوں نے کوئی زہریلی چیز نہ کھالی ہو ۔ چنانچہ فوری طور پر ڈاکٹر کو بلوایا گیا ۔ڈاکٹر نے انہیں چیک کیا ۔ اسٹیتھ سکوپ سے دل کی دھڑکن چیک کی ٗآنکھوں کی پتلیوں کا جائزہ لیا اور بتایا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں مسٹربھٹو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔
اطراف کی کوٹھڑیوں میں بند سارے قیدی بلند آواز سے تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھے اور جیل کی ساری فضا ان کی آواز سے گونج رہی تھی ۔ یہ انتظام خصوصی طور پر اس وقت کیا جاتا ہے جس کسی قیدی کو جیل میں پھانسی دی جاتی ہے ۔
رات کے ڈیڑھ بجے جیل کے بڑے دروازے کے پاس والی کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نے تارا مسیح کو آواز دی ٗ تارا اٹھو تمہارا کام شروع ہونے والا ہے ۔ تارا مسیح کوٹھڑی سے نکل کر پھانسی گھر کی طرف روانہ ہوا تو اسے پھانسی گھر کے چاروں طرف بے شمار لوگ مستعد کھڑے نظر آئے ۔ان میں کئی وردیوں والے بھی تھے اور کئی وردیوں کے بغیر سفید کپڑوں میں بھی ۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے پر سوچ اور فکر کے گہرے سائے لہرائے۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔ اس نے ڈیڑھ انچ قطر کا رسہ پول سے باندھا ٗ اپنی مخصوص گرہ لگائی اور انہیں کھینچ کر دیکھ لیا کہ ٹھیک طرح سے کام کرتا ہے اس کام میں ایک اور جلاد نے بھی اس کی مدد کی ۔
پونے دو بجے سپرنٹنڈنٹ جیل نے مسٹر بھٹو کوموت کے وارنٹ کامتن پڑھ کر سنایا اب انہیں سو فیصد یقین کرنا پڑا کہ جیل حکام ان سے کوئی ڈرامہ نہیں کررہے ٗ معاملہ واقعی "سیریس "ہے ۔ اس عالم میں ان کی حالت دیدنی تھی ۔ دل بے اختیار بیٹھا جارہا تھا۔ چند لمحے تصویرحیرت بنے وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کامنہ تکتے رہے۔ پھر قوت ارادی سے کام لے کر انہوں نے اپنے بکھرے ہوئے حواس اور ٹوٹے ہوئے حوصلے کو یکجا کیا اور آہستہ سے بولے "مجھے وصیت لکھنی ہے کاغذ چاہیئے"انہیں بتایا گیا کہ اب وصیت لکھنے کامرحلہ گزر چکا ہے ۔ شام کو انہوں نے وصیت لکھنے سے انکار کردیاتھا ۔ اب یہ انتظام ممکن نہیں ۔ پھانسی کے لیے دو بجے کاوقت مقرر تھا اور اب دیر ہوتی جارہی تھی۔
سپرنٹنڈنٹ جیل بلیک وارنٹ کامتن سنانے کے بعد انتظامات کا آخری جائزہ لینے کے لیے پھانسی گھر کی طرف چلے گئے ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ٗ بعض اعلی فوجی ور سول افسر اور مسٹر بھٹوموت کی کوٹھڑی میں رہے ۔ پھانسی پانے والے مجرموں کو عام طور پر چست قسم کامخصوص لباس پہنایا جاتاہے لیکن مسٹر بھٹو نے یہ لباس نہیں پہنا ۔ وہ شلوار قمیض میں ہی ملبوس رہے اور پاؤں میں چپل تھی ۔ انہوں نے نہانے سے بھی انکار کردیا ۔ ان کی ٹانگیں بے جان سی ہورہی تھیں اور ان میں کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہیں رہی ۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک مایوس کن منظر تھا۔ سب ان سے بلند حوصلے اور مضبوط اعصاب کی توقع رکھتے تھے ۔
ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ جیل نے مسٹر بھٹو سے چند قرآنی آیات کے ورد کے لیے کہا .... مسٹر بھٹو خاموش رہے۔ اب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل نے ایک ہیڈ وارڈن اور چھ وارڈرن کو طلب کیا اور ان کی مدد سے مسٹر بھٹو کے دونوں ہاتھ پشت پر لے جاکر ایک رسی سے مضبوط باندھ دیئے گئے ۔ اس کے بعد دو وارڈنوں نے مسٹر بھٹو کو دائیں اور بائیں بازووں سے پکڑا اور انہیں تختہ دار کی طرف لے چلے ۔ مسٹر بھٹو میں چلنے کی ہمت نہیں تھی ٗ چند قدم کے بعد ہی ان کا سانس بری طر ح پھول گیا اور ٹانگیں جواب دے گئیں ۔ قریب تھا کہ وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑتے ۔ اردگرد کھڑے وارڈنوں نے لپک کر تھام لیا ...... پتہ چلا مسٹر بھٹو صدمے سے نڈھال ہوگئے ہیں ۔ متعلقہ عملے نے انہیں سہارادے کر کھڑا رکھنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ ان کی ٹانگیں بالکل ہی بے جان ہوچکی تھیں ۔ایک سٹریچر منگوا کر انہیں اس پر ڈالا گیا اور دو آدمیوں نے سٹریچر اٹھالیا۔ مشکل یہ تھی کہ وہ کبھی دائیں طرف لڑھک جاتے تو کبھی بائیں طرف ۔ چنانچہ سٹریچر کو چاروں طرف سے پکڑا گیا اور یوں مسٹر بھٹو کو پھانسی کے تختے کی طرف لے جایاگیا ۔ سٹریچر اٹھا کر چلنے والوں کے ہونٹوں پر کلام اﷲ کے مقدس الفاظ تھے ۔ساری جیل تلاوت قرآن پاک کی آواز سے گونج رہی تھی ۔تلاوت کلام الہی کرنے والے موت کے چبوترے کے گرد بھی کھڑے تھے کہ یہی جیل کادستور ہے ۔
پھانسی کے چبوترے کے پاس پہنچ کر (جہاں مسٹر بھٹو کو پھانسی دی جانی تھی)سٹریچر رکھ دیاگیا اور انہیں اٹھنے کے لیے کہاگیا ۔ مسٹر بھٹو بڑی مشکل سے اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے اس وقت انہیں اپنی بیوی کو یاد کیا اور مدھم سی آواز میں یہ الفاظ سنے گئے ۔
I am sorry for my wife she will be left alone
مسٹر بھٹو کو تختوں پر کھڑا کیا جاچکا تھا کہ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں دھیرے سے کہا یہ تکلیف دیتا ہے ان کا اشارہ رسی کی طرف تھا جس سے ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔تارہ مسیح لپک کر آگے بڑھا اور اس نے رسی ڈھیلی کردی ۔
گھڑی کی سوئی دو بجے سے آگے بڑھ چکی تھی۔ تارا مسیح نے ان کے چہرے پر سیاہ نقاب چڑھانے کے بعد پھندا ان کے گلے میں ڈال دیا ٗ دونوں پیروں کو ملا کر ستلی بھی باندھی جاچکی ٗ تارا مسیح تختوں سے اتر آیااور اب اس لمحے کا منتظر تھا کب سپرنٹنڈنٹ جیل ہاتھ کے اشارے سے اسے لیور کھینچنے کاحکم دیں گے ۔تختہ کھینچنے میں صرف چند ساعتیں باقی تھیں کہ مسٹر بھٹو نے انتہائی کمزور آواز میں کہا Finish it سپرنٹنڈنٹ جیل کی نظریں اپنی ریڈیم ڈائل گھڑی پر جمی تھیں ۔ یکایک انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے نیچے گرالیا ۔ یہ اشارہ تھا لیور دبانے کا ۔ تارا مسیح کے مشاق ہاتھوں نے بڑی پھرتی سے لیور کھینچ دیا ۔ دونوں تختے ایک آواز کے ساتھ اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے اور بارہ فٹ گہرے کنویں میں اندر کی جانب کھل چکے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک ذہین و فطین انسان جو اپنی زندگی میں شر کی قوتوں سے خود بھی مسحور و مغلوب رہا اور دوسروں کو بھی مسحورو مغلوب کرتا رہا ..... اور جس نے اپنی طرز کے ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی ...... اپنے پورے عہد اور اپنی افتاد طبع کے ساتھ خاموشی سے موت کے اس اندھے کنویں میں جاگرا ۔اﷲ اکبر۔
مسٹر بھٹو کو بڑا زعم تھا کہ تاریخ پر ان کی نظر بڑی گہری ہے اور ان کا تاریخ کا مطالعہ بہت وسیع ہے لیکن افسوس وہ نوع انسانی کی تاریخ کا یہ سب سے اہم اور بڑا سبق نہ دیکھ سکے۔ `
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1337143926340415
This is "democracy" of Pakistan. This is reality of PPP. PMLN is no different. MQM is no different...But Bhutto's story you must read...it gave me shivers....
پاکستانی تاریخ کا ایک اہم راز ذوالفقار علی بھٹو اپنے جذبہ انتقام کی بدولت ہی پھانسی کے تختے پر جا پہنچے۔
ذوالفقار علی بھٹو بظاہر توعام انسان ہی تھے لیکن ان کا مزاج اور فیصلے آمرانہ رہے ۔ وہ اختلاف رائے کو اپنی توہین تصورکرکے اختلا ف کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاکرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی انتقامی کاروائیوں کی تفصیل بھی بہت طویل ہے ۔تفصیل میں جائے بغیر یہاں صرف ان کے اسمائے گرامی درج کررہا ہوں تاکہ بطور ریفرنس نام محفوظ رہیں ۔ مسٹر بھٹو کا سب سے پہلا شکار ڈیرہ غازی خان سے جماعت اسلامی کے ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد بنے۔دوسرا شکار خواجہ محمد رفیق ٗ تیسرا شکار بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام کے مولوی شمس الدین ٗ پیر پگاڑا کے چھ حرمرید ٗ نیپ پختون خواہ کے لیڈر عبدالصمد اچکزئی ٗپیر پگاڑا کے ہی ایک اور خلیفہ فقیرمحمدامین ٗکراچی کے ضامن علی ٗ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم رہنما عبدالوحید ٗ صادق آباد کے ممتاز طبیب ڈاکٹر محمد سلیم باجوہ ٗفیصل آباد کے دو بھائی (جن کا نام خوشنود عالم اور محمدانور تھا) بھی مسٹر بھٹو کے جذبہ انتقام کا نشانہ بن کر اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھے ۔(اقتباس ہفت روزہ تکبیر کراچی ) ۔مسٹر بھٹو نے جہاں مخالفین کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگے وہاں پیپلز پارٹی کے بانی اراکین اور اپنے دیرینہ ساتھیوں کو بھی نہیں بخشا ۔ جے اے رحیم کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے انہیں اختلاف کی سزا دینے کے لیے بدنام زمانہ تنظیم ایف ایس ایف کو ہی استعمال کیاگیا۔جن پر اس قدر تشدد کیاگیا کہ ان کے چہرے اور ناک پر گہرے زخم آئے ۔ملک محمد قاسم ٗ خواجہ خیرالدین ۔مولانا شیر محمد ٗ ممتاز شاعر حبیب جالب ٗمولوی سلیم اﷲ ٗجماعت اسلامی کے رکن مجلس عاملہ رانا نذر الرحمن ٗمیاں محمد یسین خان وٹو ٗ سید قسور گردیزی ٗغفوراحمد شامل ہیں ۔بھٹو دور میں ہی دلائی کیمپ کو قومی سطح پر شہرت ملی ۔ دلائی کیمپ میں بھی میاں افتخار احمدتاری سمیت درجنوں اپنے اور پارٹی مخالف لوگوں کو بہیمانہ تشدید کا نشانہ بنایا گیا ۔بہرکیف مسٹر بھٹو نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنے جذبہ انتقام کو تسکین دینے کے لیے اپنی قائم کردہ تنظیم ایف ایس ایف کے ذریعہ بے شمار قتل بھی کروائے اور ہزاروں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور بھی کیا ۔ اس حوالے سے مسٹر بھٹو اس قدر ماہر ہوچکے تھے کہ ان کے مخالفین کا ہونے والا کوئی ایک قتل بھی پکڑا نہیں جاسکا ۔سوائے نواب محمداحمد خان قتل کے ۔ اس قتل کیس کو بھی شاید وہ مہارت سے دبا دیتے ٗاگر ایف آئی آر میں مسٹر بھٹو کا براہ راست نام شامل نہ ہوتا اور 5 جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل نہ لگتا ۔ اسی لیے کہاجاتاہے کہ انسان جب دوسروں کو بیوقوف اورخود کو حد سے زیادہ چالاک ٗہوشیار اور شاطر تصور کرنے لگتا ہے تو قدرت جوش میں آتی ہے پھر وہ اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں کچھ اس طرح پھنس جاتاہے کہ اسے خبر بھی نہیں ہوتی ۔مسٹر بھٹو کے دور اقتدار کی کہانی بہت پر پیچ اور حیرتوں کاسامان لیے ہے ۔ جس کی تہہ میں اترنے کے لیے بے شمار تاریخی گوشوں کو وا کرنا پڑاہے ۔ مسٹر بھٹو قدرت اور قانون کی گرفت میں کیسے آئے اور کیسے عدالت میں مقدمہ قتل کی فرد جرم ان پر عائد ہوئی اور کیسے ان کے لیے سزائے موت تجویز ہوئی ۔کوٹ لکھپت جیل اور ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں پھانسی کے پھندے پر جھولنے تک ان پر کیا گزری ٗ یہ پاکستانی تاریخ کا ایک اہم ترین راز ہے ۔ اس میں جہاں عبرت کا سامان ہے وہاں اس قصے سے بے شمار کہانیاں بھی جنم لیتی ہیں ٗ جو بھٹو خاندان کے اردو گرد گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔آئیے مسٹر بھٹو کی کہانی 1977ء سے شروع کرتے ہیں جب انہوں نے مزید پانچ سال اقتدار پر قابض رہنے کے لیے قومی سطح پر الیکشن کروانے کا فیصلہ کیاتھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کو مزید پانچ سال طول دینے کے لیے7 مارچ 1977ء کو قومی الیکشن کروانے کا اعلان کردیا ۔ جبکہ فوج سمیت ہر قومی ادارے پر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے جیالوں کا مکمل کنٹرول تھا ۔ کسی کوئی جرات نہ تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف زبان کھول سکے ۔ پوری قوم کو آٹا چینی لینے کے لیے ڈپووں کے سامنے لمبی قطاریں لگانی پڑتیں ۔یہ راشن ڈپو صرف پیپلز پارٹی کے جیالوں کو ہی الاٹ کیے جاتے جبکہ راشن کارڈ بنوانے کے لیے پیپلزپارٹی سے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے جیالوں کی سفارش بھی ضروری سمجھی جاتی ۔تب کہیں جاکر آدھا کلو چینی فی کس اور پانچ کلو آٹا ملتاتھا ۔ یہ پندرہ دن کا کوٹہ ہوتا ٗ پندرہ دن بعد پھر یہی پریکٹس دھرائی جاتی ۔بہرکیف قومی الیکشن کا اعلان ہوا تو جن مخالف امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی جستجو کی ۔ ان میں سے اکثریت کو پیپلز پارٹی کے غنڈوں نے اغوا کرکے نامعلوم مقامات پر قید کردیا ٗ جب کاغذات نامزدگی کا وقت ختم ہوا تو یہ اعلان کردیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے آدھے سے زائد امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوگئے ہیں ۔ پھر جب قومی الیکشن کا دن آیا تو رہی سہی کسر پیپلز پارٹی کے امیدوار وں نے اپنے مسلح ساتھیوں کے ذریعے بولنگ بوتھوں پر ووٹوں کے خالی بکس اٹھا کر ان کی جگہ ووٹوں سے بھرے بکس رکھ کر پوری کردی ۔ شام ڈھلے جب نتائج کااعلان ہوا تو پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی ۔ قومی سطح پر حد سے زیادہ دھاندلی کے پیش نظر پیپلز پارٹی مخالف سیاست دانوں نے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کرلیا جس میں اصغرخان ٗ مولانا شاہ احمدنورانی ٗ غفور احمد ٗ ملک قاسم اور دیگر سیاست دان شامل تھے ۔ان سیاست دانوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پرجمع ہوکر صوبائی الیکشن کا بائیکاٹ کردیا اور احتجاج کے لیے عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی تاکید کی ۔اپوزیشن کی کال پر عوا م کا جم غفیر دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتا ہوا سڑکوں پر نکل آیا۔پیپلز پارٹی کو اپنی دھاندلی کے خلاف یہ احتجاج ہرگز قبول نہ تھا چنانچہ ذوالفقار بھٹو کے حکم پر ایف ایس ایف (فیڈرل سیکورٹی فورس ) پولیس اور مسلح جیالوں نے عوامی احتجاج کو طاقت سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ لیکن جو ں جوں تشدد بڑھنے لگا اسی طرح عوامی تحریک میں گرمجوشی بڑھنے لگی ۔ پاکستان قومی اتحاد کے جلسوں اور جلوسوں میں لاکھوں کی تعدا میں لوگ شریک ہوکر دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے لگے ۔ احتجاجی تحریک میں شدت پیدا ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے تین شہروں میں عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے فوج طلب کرکے جزوی مارشل لاء لگادیا ۔اس دوران فوج نے مظاہرین پر کئی مقامات پر گولیاں بھی چلائی لیکن حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے احتجاج کے پیش نظر فوج میں شدید ردعمل کا اظہار ہونے لگا ۔ تین بریگیڈئر نے عوام کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ ایسی ہی صورت حال کا سامنا دیگر شہروں میں بھی دیکھنے میں آیا ۔ چنانچہ فوج میں بڑھتی ہوئی تشویش کو دیکھتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کی صدارت میں کورکمانڈر کااجلاس راولپنڈی میں ہوا۔ جس میں ملک کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کیاگیا کہ بھٹو صاحب کو فوج کی جانب سے سیاسی تصفیے کا مشورہ دیاجائے ۔ ہفت روزہ تکبیر میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کورکمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل جہاں زیب ارباب صورت حال کا کچھ اس طرح اظہار کرتے ہیں ۔" فوج نے بھٹو صاحب کو دوبارہ الیکشن کروانے کے لیے تین ماہ کا وقت دیا ۔اس کے بعد بھٹو صاحب نے کابینہ کے اجلاس میں آرمی چیف سمیت تمام کور کمانڈرز کو بھی طلب کرنا شروع کردیا ۔دوران اجلاس بھٹو صاحب نے مجھے مخاطب ہوکر کہا کہ کراچی کے حالات تسلی بخش نہیں ہیں حالات کنٹرول میں کیوں نہیں ہورہے ۔ میں نے جواب دیا سر ۔ بہتر یہ ہے کہ آپ سیاسی تصفیہ کرلیں کیونکہ بپھری ہوئی عوام کو کنٹرول کرنا فوج کے بس میں نہیں ہے ۔ اس پر ٹکا خان (جو فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو کے مشیربن چکے تھے )نے کہا ملک کی خاطر تیس چالیس ہزار بندے اگرمار دیئے جائیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا ۔میں نے کہا ٹکا خان آپ بھٹو کے مشیر ہیں فوج کے نہیں۔ اس لیے اپنی زبان بند ہی رکھیں تو بہتر ہے ۔ اس پر وزیر صحت شیخ رشید کہنے لگے چین میں ثقافتی انقلاب کے دوران دس لاکھ افراد کو مار دیاگیا تھا ٗ پھر سب کچھ ٹھیک ہوگیا ۔آج آپ پر فرض عائد ہوتاہے کہ آپ بھی جمہوریت کے تحفظ کے لیے یہ کارنامہ انجام دے دیں ۔ یہ آپ کا تاریخی کارنامہ ہوگا ٗ اس طرح ملک ترقی کرے گا ۔ شیخ رشید کااتنا کہنا تھا کہ جنرل اقبال خان گرج کر بولے ....تم جاؤ اور لوگوں کو خود ماردو ....ہم عوام کو نہیں مارسکتے۔اس کے ساتھ ہی کابینہ کا اجلاس ختم ہوگیا اور میں کراچی واپس آگیا لیکن اس کے بعد تین دنوں میں بھٹو صاحب کے مجھے تین فو ن آئے۔ پھر پیپلز پارٹی کے معتبر افراد کو بھی بھیجا گیا اور مجھے اس کام کے عوض جنرل ضیاء الحق کی جگہ آرمی چیف بنانے کی پیشکش بھی کی گئی ۔میں نے پھر بھی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ پھر صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلی ارباب جہانگیر (جو رشتے میں میرے ماموں تھے ) انہیں میرے پاس بھیجا گیا کہ میں بھٹو کی حمایت کروں اور عوامی بغاوت کو کچلانے میں ان کا ساتھ دوں ۔ لیکن میرا جواب ہر مرتبہ انکار میں ہی رہا ۔"
اس وقت کے کورکمانڈر راولپنڈی جنرل فیض علی چشتی اردو ڈائجسٹ کے شمارہ جولائی 2016ء میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ لاہور میں تین بریگیڈئروں نے عوام پر گولی چلانے سے انکا ر کرتے ہوئے احتجاجا استعفے دے دیے تھے ۔فوج کی Back Bone ٹوٹ رہی تھی اگر فوج ہی ختم ہوجاتی تو پھر بھارت جیسے ازلی دشمن کو موقع مل جاتا کہ وہ حملہ کرکے پاکستان کو ہی ختم کردے ۔جنرل فیض چشتی نے کہا کہ ہمیں اس بات کا علم تھا کہ ہم جو کام کرنے جارہے ہیں ٗ آئین میں اس کی سزا موت ہے۔ ایک طرف حالات اس قدر خراب ہوچکے تھے کہ فوج کو یہ رسک لینا پڑا ۔7 مارچ سے ( جس دن الیکشن ہوئے ) سے لے کر 4 جولائی تک ہم نے بھٹو حکومت کو سپورٹ کیا لیکن جب حالات دن بدن خراب ہوتے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آئے ۔ ہر شہر میں کشت و خون جاری تھا اس لمحے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ حکومت کا تختہ الٹادیاجائے اور فوج معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لے ۔ کوثر نیازی کی کتاب "اور لائن کٹ گئی " پڑھیں اس کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جنرل ضیا ء الحق اور کور کمانڈر بھی اس میٹنگ میں بھٹو صاحب کے ساتھ موجود تھے۔ جنرل عبداﷲ ملک کی بات پر میں نے کہا یہ سیاسی مسئلہ ہے اس کا حل بھی سیاسی ہی ہونا چاہیئے لیکن اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے یہ فقرہ کہا,
you donot worry I will do the needful. These bastards are not coming on the correct path.
مارشل لاء لگانے میں پانچوں کورکمانڈر متفق تھے ۔ جب چیف کی جانب سے حکم ہوا تو یہ میری ذمہ داری تھی کہ ایکشن کامیاب ہو ۔اس وقت فوج کے مقابلے میں پولیس ٗ ایف ایس ایف بھی تھی۔ جسے بھٹو نے فوج سے لڑنے کے لیے جدید ترین ہتھیار بھی دے رکھے تھے ۔ ان کے پاس ٹینک بھی تھے چنانچہ ہم نے انتہائی احتیاط کے ساتھ آپریشن فیئر پلے مکمل کیا ۔5 جولائی کی رات بھٹو صاحب کا جنرل ضیاء الحق کو فون آیا کہ فوج کی موومنٹ کا مطلب کیا ہے ؟ ضیاء الحق نے کہا سر ہم نے ٹیک اوور کرلیا ہے ۔ اب آپ پرائم منسٹر نہیں رہے ۔ اس پر بھٹو صاحب نے پوچھا اب میرے لیے کیا حکم ہے ؟ ضیا ء الحق نے جواب دیا کہ جیسا آپ چاہیں ٗ آپ کی خواہش ہو تو رات پرائم منسٹر میں بھی گزار سکتے ہیں ۔ صبح آپ کو مری لے جائیں گے ۔ پھر اگلی صبح جب بھٹو صاحب کو مری منتقل کردیا تو وہاں جنرل ضیاء الحق اور میں دونوں ان سے ملنے گئے ۔ اس ملاقات میں بھٹو کو حفاظتی حصار سے رہا کردیاگیا اور بھٹو صاحب واپس لاڑکانہ چلے گئے ۔16 جولائی کو انہوں نے پھراپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں ۔یہ ملتان کی بات ہے جب بھٹوصاحب نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں جنرلوں کو لٹکا دوں گا ۔ نواب محمد احمد خان کے قتل کامقدمہ خود بھٹو صاحب کے دور میں ان کے خلاف درج ہوا تھا ٗ مقتول کے بیٹے احمد رضا قصوری نے ایف آئی آر میں بھٹو کا نام لکھوایا تھا یہ 302 کا مقدمہ تھاجو ختم نہیں ہوتا اور زائد المیعاد بھی نہیں ہوتا ۔مجھے یہ بتایا گیا کہ مقتول کی بیگم نے جنر ل ضیاء الحق سے ملاقات کی اور کہا کہ اگر اب بھی مجھے انصاف نہ ملا تو کب ملے گا ؟ میں انصاف کس سے مانگوں ۔یہ کیس سیشن کورٹ سے براہ راست ہائی کورٹ میں پہنچ گیا ۔"یہ باتیں جنرل (ر) فیض علی چشتی کی ہیں جو بھٹو کا تختہ الٹتے وقت کور کمانڈر راولپنڈی تھے اور الیون بریگیڈ کی کمانڈ ان کے پا س تھی۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز کے سنئیر افسر محمد حسین ملک اپنے ایک کالم جو روزنامہ پاکستان کی 26-4-2013 اشاعت پذیر ہوا ۔ لکھتے ہیں کہ احمد رضا قصور ی ایک جوشیلے طالب علم لیڈر تھے وہ خود بھی بھٹو کے پرستاروں میں شامل تھے۔ وہ 1970ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے ۔احمد رضا قصور ی اپنی عادت اور نڈر پن کی وجہ سے پارٹی میں بہت جلد مشہور ہوگئے ۔ اس زمانے میں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔ احمد رضا قصور ی مختلف معاملات پر ان سے اختلاف کی جرات کر لیا کرتے تھے اور کھلم کھلا تنقید بھی اور یہ بھی ساتھ کہتے کہ تنقید ہی جمہوریت کا اصل حسن ہے ۔وہ ذوالفقار علی بھٹو کو جمہوریت کا چیمپئن کہا کرتے تھے اور خوب زور دار آواز میں پارٹی اجلاس میں انہیں میرے چمپیئن ذرا غور سے سینئے ٗ یہ فقرے ایسے تھے جنہیں وہ بار بار دھراتے تھے ۔دو چار مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ڈانٹا بھی ۔ لیکن وہ اپنی بات پوری کرکے چھوڑتے ۔غلام مصطفے کھر جو اس وقت گورنر پنجاب تھے۔ انہوں نے احمد رضا قصور ی کو بلا کر کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی ۔لیکن احمد رضا قصور ی نے صرف ایک سال میں ہی بھٹوکی ناک میں دم کردیا۔بھٹو دور میں ہی ایک نیم عسکری تنظیم ایف ایس ایف بنائی گئی ٗ اس تنظیم کو وسیع اختیارات حاصل تھے ۔یہ کسی کو بھی حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیتے پھر ان لوگوں کاکہیں پتہ نہ چلتا ۔کئی مقدمات ہائی کورٹ میں حبس بے جا کے ہوئے لیکن ایف ایس ایف کے زیر حراست افراد کا پتہ نہ چلا ۔عام طور پر یہ مشہور تھا کہ یہ فورس حراست میں لیے گئے افراد کو یا توموت کے گھاٹ اتار دیتی ہے یاپھر انہیں ہمیشہ کے لیے غائب کردیاجاتاہے ۔ حالت یہ تھی کہ پولیس کے ضلعی انچارج ٗ ایس پی اور ڈویڑن انچارج ٗ ڈی آئی جی بھی اس فورس کے ایک عام انسپکٹر اور سب انسپکٹر سے ڈرتے تھے ۔ویسے بھی اس فورس کے پا س جدید اسلحہ ٗ جدید گاڑیاں ٗ فون ٹیپ کرنے کے جدید آلات اور دوسری ایسی تمام چیزیں موجود تھیں جو بطور ایک خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی یا انٹیلی جنس اداروں کے علاوہ کسی اورکے پاس نہیں تھی ۔یہ فورس پورے ملک میں خوف کی علامت بن چکی تھی اور اس کی اکثریت بدنام زمانہ پولیس افسر وں کی تھی ۔جنہیں کئی گناہ زیادہ تنخواہ اور مراعات کے ساتھ یا ڈیپوٹیشن پر ایف ایس ایف میں شامل کیاگیاتھا ۔
جب احمد رضا قصور ی پر تمام دوسرے حربے ناکام ہوگئے تو وزیر اعظم بھٹو نے اس فورس کو حکم دیاکہ احمدرضا قصور ی کا پتہ صاف کردیاجائے ۔۔چنانچہ بھٹو کے حکم پر یہ فورس احمد رضا قصور ی کے پیچھے لگ گئی اور اس کی خفیہ نگرانی شروع کردی ۔ ایک رات جب وہ اپنے والد ٗ والدہ اوررشتہ داروں کے ہمراہ شادمان لاہور کے علاقے میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے آرہے تھے تو ایف ایس ایف کی ایک گاڑی میں سوار کچھ لوگوں نے ان کا پیچھا کیا ۔ شادی ختم ہوئی اور احمد رضاقصوری اپنے خاندان کے ہمراہ واپس جارہا تھا تو راستے میں چھپے ہوئے اہلکاروں نے اس کار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں احمد رضا قصور ی کے والد نواب محمد احمد خان شدید زخمی ہوگئے اور بعض رشتہ داروں کو بھی گولیاں لگیں۔نواب صاحب کو شدید زخمی حالت میں رات ایک بجے یوسی ایچ ہسپتال لے جایاگیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ۔چنانچہ احمد رضا قصوری کے ایما پر ذوالفقار علی بھٹو اور ایف ایس ایف کے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا ۔اس وقت تھانے میں اصغر خان عرف ہلاکو خان پولیس افسر بطور ڈی ایس پی تعینات تھا اس نے ایف آئی آر کاٹی اور اس کی نقل احمد رضا قصوری کو دے دی اور میڈیا والوں کو بتایا کہ فی الحال ایف آئی آر کو سربمہر کردیاگیا ہے ۔یہ وہی ایف آئی آر تھی جو 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگنے کے بعد مقدمہ قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کا باعث بنی۔شروع میں جسٹس کے ایم صمدانی نے بھٹو کی ضمانت بھی لی لیکن قائمقام چیف جسٹس مولوی مشتاق احمد نے یہ ضمانت منسوخ کردی اور قتل کے مقدمے کی سماعت شروع کردی ۔
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی ایف ایس ایف ختم کرکے اس تنظیم کے اہلکاروں کو چاروں صوبوں کی پولیس میں کھپا دیا۔ایف ایس ایف کے پانچ اہلکاروں کو وعدہ معاف گواہ بنالیا گیا ۔جنہوں نے ہائی کورٹ میں اپنے جرم کااقرار کرلیا اور بتایا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر گولیاں چلائیں اور اسی کے نتیجے میں احمد رضا قصور ی کے بجائے ان کے والد کی موت واقع ہوئی ۔اس مقدمے میں بھٹو سمیت ان پانچ میں سے چار اہلکاروں کو بھی پھانسی کی سزا سنائی گئی ۔
ممتاز تجزیہ نگار اور سنئیر رپورٹرمحمد شریف کیانی جو ماضی میں ماہنامہ قومی ڈائجسٹ میں عدالتی رپورٹنگ کیاکرتے تھے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کے نشیب و فراز اور کوٹ لکھپت جیل میں ہونے والے واقعات کے علاوہ ڈسٹرکٹ سنٹرل جیل راولپنڈی میں منتقلی سے پھانسی گھاٹ تک کے حالات کچھ اس انداز سے قلم بند کیے ہیں کہ لمحہ لمحہ حالات پرمشتمل یہ کہانی پاکستانی تاریخ کاایک اہم راز قرار دی جاسکتی ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ 11نومبر 1974ء کو وائٹ ہاؤس ملتان (جو اس وقت کے گورنر پنجاب نواب صادق حسین قریشی کی عظیم الشان کوٹھی کا نام ہے )ذوالفقار علی بھٹو اور ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود وائٹ ہاؤس میں پہنچے ۔مسعود محمود وائٹ ہاؤس میں قیام کی بجائے ایک ریسٹ ہاؤس میں جاکر سو گیا ۔جبکہ مسٹر بھٹو نے رات وائٹ ہاؤس میں ہی بسر کی۔صبح سویرے سرہانے رکھے ہوئے فون کی گھنٹی بجی تو مسعود محمود نے ریسور اٹھا کر کان سے لگایا ۔ لائن کے دوسری جانب وزیر اعظم بھٹو ان سے مخاطب تھے ۔ انہوں نے چھوٹتے ہی ایک بھاری بھرکم غلیظ گالی دی اور کہا تمہارے اس میاں عباس نے تو بیڑا ہی غرق کردیا ہے ۔اسے کہا تھا کہ احمد رضاقصوری کو قتل کرے ٗ اس بے وقوف نے اس کے باپ کو مارڈالا ۔تم فورا یہاں آؤ ۔اتنا کہہ کر بھٹو نے فون بند کردیا۔مسعود محمود ہاتھ میں پکڑے ریسیور کو گھورنے لگا۔اس لمحے اسے مسٹر بھٹو سے اپنی چند ماہ پہلے کی ایک ملاقات یاد آئی ۔جس میں مسٹر بھٹو نے کہاتھا میں احمد رضا قصوری کے گستاخانہ رویے سے تنگ آچکاہوں ۔میاں عباس ڈائریکٹر آپریشنز اس کی سرگرمیوں سے آگاہ ہے ٗ اسے احمد رضا قصوری سے نجات حاصل کرنے سے متعلق پہلے ہی ہدایات دی جاچکی ہیں۔ اس سے کہو کہ وہ اپنا کام جلدی کرے اور مجھے احمد رضا قصوری کی لاش یا پٹیوں میں لپٹا ہوا اس کا گولیوں سے چھلنی جسم پیش کیاجائے ۔مسعود محمود نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے تو مسٹربھٹو سیخ پا ہوگئے اورگرجتے ہوئے بولے میں تمہاری یا میاں عباس کی طرف سے کوئی بیہود گی برداشت نہیں کروں گا ۔جب مسعود محمود نے میاں عباس کو مسٹر بھٹو کے حکم سے آگاہ کیا تو جواب ملا گھبرائیے نہیں مسٹر بھٹو کے حکم کی تعمیل ضرور ہوگی ..... اور آج شاید اسی حکم کی تعمیل ہوئی تھی ۔ بہرکیف جب تیار ہوکر مسعود محمود وائٹ ہاؤس پہنچے تو وہاں مسٹر بھٹو اور نواب صادق حسین قریشی بیٹھے کافی پی رہے تھے ۔مسعود محمود کو دیکھتے ہی مسٹر بھٹو نے بڑے معنی خیز انداز میں آنکھ ماری اور نواب محمد خاں کے قتل کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا جیسے وہ پہلی بار مسعود محمود کے سامنے اس موضوع پر بات کر رہے ہیں ۔"میں نے سنا ہے کہ احمد رضا قصوری کے باپ کو لاہور میں کسی جگہ قتل کردیاگیا ہے ۔" جی ہاں میں نے بھی سنا ہے ۔ مسعود محمود ۔
اس وقت محمد حنیف رامے وزیر اعلی پنجاب کے منصب پر فائز تھے جنہوں نے احمد رضا قصوری کے والد کی ہلاکت اور فائرنگ کے واقعے کی خبر اخبارات میں شائع ہوتے ہی اس حادثے کی عدالتی تحقیقات ہائی کورٹ کے جج سے کروانے کا حکم دے دیا ۔اس مقصد کے لیے مسٹر جسٹس شفیع الرحمن کا نام تحقیقاتی کمیشن کے لیے منتخب کیاگیا ۔اس عدالتی کمیشن کا دائرہ کار محدود تھا اور ایک ماہ کے اندر اسے رپورٹ بھی تیار کرنی تھی ۔ مسٹرجسٹس شفیع الرحمن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ شادمان چوک میں ہونے والی واردات اور تقریبا تین ماہ قبل اسلام آبا د میں ہونے والی واردات میں ایک ہی قسم کا اسلحہ استعمال کیاگیا ۔اس لیے ان دونوں وارداتوں کے پس پردہ عزائم بھی ایک ہی جیسے ہیں ۔ ان وارداتوں کومنظم بھی ایک ہی انداز میں کیاگیا تھا ۔اگرچہ ارتکاب کرنے والے مختلف تھے ۔اس حادثے کی وجہ سیاسی یا پیپلز پارٹی سے مسٹر احمد رضا قصوری کی علیحدگی بھی ہوسکتی ہے ۔اس کے پیچھے جائیداد کا جھگڑا یا کوئی ذاتی دشمنی کار فرما نہیں ہے۔اس جرم کاارتکاب کرنے والے بڑے منظم ٗ پوری طرح مسلح اور بھرپور وسائل رکھتے تھے ۔پولیس کی تحقیقات اور طرز عمل کے بارے میں مسٹرجسٹس شفیع الرحمن نے لکھا کہ پولیس اہلکاروں نے تعاون کرنے کی بجائے کئی مراحل میں رکاوٹیں ڈالیں تفتیشی افسر ڈی ایس پی عبدالاحد اور ایس ایس پی نے اس تحقیقات کی جو نگرانی کی وہ بھی ناتمام اور ادھوری تھی ۔یہ دونوں نہ تو واردات میں استعمال ہونے والے ہتھیار کی نوعیت کا پتہ چلا سکے اور نہ ہی انہوں نے کوشش کی ۔اس ڈرامے کے ڈراپ سین میں وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو نے خصوصی دلچسپی لی۔ ایک ایک لمحے کی رپورٹ انہیں ملتی رہی ۔"
پھر مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پرائم منسٹر ہاؤس سے جو دستاویزات ملیں ان سے مقدمے میں مسٹر بھٹو کی دلچسپی صاف ظاہر ہوتی تھی ۔ذرا سینئے یہ دستاویزات کیاکہانی سناتی ہیں ۔قتل کی واردات تھانہ اچھرہ کی حدود میں ہوئی ٗ وہیں رپورٹ درج ہوئی اور ابتدائی تفتیش اچھرہ سرکل کے ڈی ایس پی مسٹر عبدالاحد کرتے رہے۔ بعد ازاں پراسرار حالات میں ان کی موت واقع ہوگئی ۔7 مارچ 1977ء کو وزیراعلی پنجاب محمد حنیف رامے نے عدالتی کمیشن کی رپورٹ وزیر اعظم ہاؤس بھجوائی ۔یہ رپورٹ جب مسٹر بھٹو کوپیش کی گئی تو مسٹر بھٹو نے اس رپورٹ پر وزیراعظم ہاؤس کے چیف سیکورٹی آفیسر سعید احمد خاں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ "میں نے تمہیں جو کچھ سمجھایا تھا اس کا فائدہ ؟ تم نے کچھ نہیں کیامجھ سے دوبارہ بات کرو۔"
وقت نے کروٹ بدلی ۔ بھٹو حکومت ختم ہوئی اور اس کی جگہ مارشل لاء نے لے لی ۔ ایف آئی اے کو ایف ایس ایف اور اس کے افسروں کی کارکردگی کی تحقیقات کا حکم ملا ۔ سیاسی قتل کی وارداتوں ٗ اغوا ٗ جلسے جلوس درہم برہم کرنے کے واقعات کی چھان بین شروع ہوئی تو لاہور ریلوے اسٹیشن پر بم کا قصہ بھی سامنے آیا ۔ یہ واقعہ مارچ 1977ء میں پیش آیا تھا ۔ائیر مارشل(ر) اصغر خاں کی آمد پر ریاض نامی ایک شخص نے بم چلانے کی ناکام کوشش کی تھی۔جسے پولیس نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا وہ ایف ایس ایف کا تنخواہ دار ایجنٹ نکلا ۔ اس سے پہلے کہ مقدمہ عدالت میں جاتا اور اسے سزا ملتی ٗ بعض حکام نے مداخلت کرکے ریاض کو چھڑوالیا اور بات آئی گئی ہوگئی ۔اسی واقعے میں ایف ایس ایف کے ایک انسپکٹر غلام مصطفی کانام بھی لیا گیا۔ جب ایف آئی اے نے از سرنو تفتیش کی تو اس نے ایف ایس ایف کا سارا کچا چٹھا اگل دیا اور کئی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھادیا ۔ اس ے بیان کی روشنی میں پیش رفت ہوئی تو کیس کے ڈانڈے نواب محمد احمد خاں کے قتل سے جاملے ۔تفتیش کا دائرہ پھیلتے پھیلتے ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر آپریشنز میاں عباس اور ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود تک جا پہنچا ۔جنہوں نے وزیر اعظم بھٹو کے ایما پراحمد رضا قصوری کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا مگر احمد رضا قصوری کی بجائے ان کے والد قتل ہوگئے ۔یہ آپریشن انسپکٹر غلام حسین ٗ انسپکٹر غلام مصطفی ٗ سب انسپکٹر ارشد اقبال اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر افتخار احمد نے انجام دیا۔وقوعہ کی رات یہ سب لوگ شادمان چوک گول چکر کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے ۔ بارہ بجے کے قریب احمد رضا قصوری کی گاڑی وہاں سے گزری توارشد اقبال نے سگنل فائر کیا اس کے بعد غلا م حسین اوراس کے ساتھیوں نے خود کار اسلحے سے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔
جب یہ پارٹی احمد رضا قصوری کو قتل کرنے میں ناکام رہی تو اعلی افسروں نے جھنجلا کر اس میں شامل لوگوں کو ختم کرنے کاپروگرام بنایا۔ چنانچہ ایک دن ارشد اقبال پر فائرنگ کی گئی ٗوہ خو ش قسمتی سے بچ نکلا لیکن اس کا بھائی نذیر اقبال جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔جب آگ مسعود محمود اور میاں عباس کے دامن تک پہنچی تو انہوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کرلیا اور کہا کہ یہ وقوعہ معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر عمل میں آیا تھا۔جنہو ں نے انہیں ذاتی طور پر حکم دیا تھا کہ احمد رضا قصوری کو راستے سے ہٹا دیا جائے ۔ کیس کی مختلف کڑیاں ملائی گئیں تو قرائن اور شہادتوں نے مسٹر بھٹو کے سر سے وزیر اعظم کا تاج اتار کر گلے میں مجرم اعظم کا طوق ڈال دیا۔
3 ستمبر 1977ماہ رمضان کامہینہ اور سحری کا وقت تھا لیکن کوٹھی کے مکین ابھی محو خواب ہی تھے ۔ ارد گرد کاماحول خواب آلود تھا۔ دور کچھ سائے حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ یہ بڑی خاموشی سے آگے بڑھ رہے تھے ۔70نمبر کوٹھی کے سامنے پہنچ کر انکے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے ۔پھر گیٹ سے گزر کر وہ اندر پہنچے چاروں طرف گہرا سناٹا تھا ۔چند آدمی دروازہ کھول کر ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ معزول وزیر اعظم مسٹر بھٹو کی خوابگاہ ہے۔ انہیں نیند سے بیدار کیاگیا ٗ لال پیلے ہوتے ہوئے بولے کون ہیں آپ لوگ۔ ؟
پولیس۔ نواب محمداحمد خان کے مقدمہ قتل میں آپ کی گرفتاری مطلوب ہے ٗ ہم آپکوگرفتار کرنے آئے ہیں ۔بھٹو نے کہا کوئی وارنٹ ؟ ۔ یہ لیجیئے ایک شخص نے جو چہرے مہرے اور وضع قطع سے کوئی افسر لگتا تھا حکم نامہ گرفتاری ان کے چہرے کے سامنے لہراتے ہوئے کہا ۔
مسٹر بھٹو پر سکتہ طاری ہوگیا چندلمحوں تک خالی نظروں سے اس پر وانہ گرفتاری کوگھورتے رہے پھر چونک کر اٹھے اورکپڑے تبدیل کرکے تیار ہوگئے ۔اس وقت صبح کے ساڑھے چار بج چکے تھے۔چندگھنٹے بعداچھرہ لاہور سے آنے والی پولیس پارٹی کے ہمراہ مسٹر بھٹو ایک خصوصی طیارے میں بیٹھ کر محو پرواز تھے ۔ یہ وہی فالکن طیارہ تھا جس میں کبھی وہ بڑی شان اور کروفر سے سفر کیاکرتے تھے۔لاہور پہنچنے کے بعد انہیں کینٹ کی ایک کوٹھی میں نظر بند کردیاگیااور پولیس نے اسسٹنٹ کمشنر کینٹ سے سات روز کا جسمانی ریمانڈ لے لیا۔6 ستمبر کو مسٹر ایم بی زمان نے لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس کے ایم صمدانی کی عدالت میں مسٹر بھٹو کی درخواست ضمانت پیش کی ۔ 12 ستمبر کو مسٹر بھٹو کوضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ چند دن کے بعد حکومت نے ضمانت کی منسوخی کی درخواست ہائی کورٹ میں دائر کی جس کی سماعت چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں فل بینج نے کی۔ جس نے دو تین مختلف سماعتوں کے بعد مسٹر بھٹو کی ضمانت منسوخ کردی اور انہیں باضابطہ طور پر قتل کیس میں لاڑکانہ سے دوبارہ گرفتا ر کرلیا گیا ۔
11 اکتوبر 1977ء کا دن اس اعتبار سے تاریخی تھا کہ اس دن عدالت عالیہ میں مسٹربھٹو کے خلاف قتل کے الزام میں فرد جرم عائد کی جارہی تھی ۔دس بجے عدالت کی کارروائی شروع ہوئی ملزم بھٹو کے وکیل نے بعض اعتراضات اٹھائے ۔ سیپشل پبلک پراسیکوٹر مسٹر ایم انور نے ان کا مدلل جواب دیا اس پر یہ اعتراضات مسترد کردیئے گئے اور ملزموں کے خلاف فرد جرم عائد کردی گئی ۔
سب سے پہلے ملزم بھٹو کو فرد جرم سے آگاہ کیاگیا کہ ان کے خلاف 09B,120,307/109,301,302/109کے تحت فر م جرم عائد کی گئی۔ جس کے مطابق انہوں نے فیڈرل سیکورٹی فورس کے سابق ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود کے ساتھ مل کر احمد رضا قصور ی کے قتل کی سازش کی۔ جس کے نتیجے میں انکے والد نواب محمداحمد خان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ بھٹو نے کہا میں مجرم نہیں ہوں ۔لیکن ایف ایس ایف کے تین جونیئر افسروں نے صحت جرم سے انکار کے ساتھ ساتھ واردات قتل کااعتراف کیااور کہا کہ ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنے افسران بالا کے دباؤکے تحت کیا ۔ ہم مجبور تھے اور ہمیں اپنی جان کا خطرہ تھا۔
فرد جرم عائد ہونے کے بعد مسٹربھٹو کو ایک مجرم کی حیثیت سے ڈسٹرکٹ جیل کوٹ لکھپت لاہور لایاگیا تو وہ ڈیوڑھی میں پہنچ کر رک گئے ۔ دائیں طرف چھت کوجانے والی سیڑھیاں نظر آئیں ٗ بالائی منزل پر پہلے ریکارڈ روم تھا۔ بعد میں مسٹر بھٹو کے حکم پر سپیشل ٹریبونل کے لیے ہال خالی کروالیا گیا ۔جہاں پنجاب سپیشل ٹریبونل کے ارکان مسٹر بھٹو کے سیاسی مخالفین اور باغی ساتھیوں کے مقدمات کی سماعت کیا کرتے تھے ۔مسٹر بھٹو نے لمحہ بھر کے لیے چھت کی طرف گھورکر دیکھا پھر بھاری بھرکم آہنی در وازے پر نظر ڈالی اور بے اختیار دل بھر آیا ۔آنکھوں سے آنسو نکل آئے انہوں نے مضبوطی سے ہونٹ بھینچ لیے اور تیزی سے اندرونی دروازے کی طرف قدم بڑھادیئے ۔یہ وہی جیل تھی جہاں قومی اتحاد کے کئی سرکردہ لیڈر اور مسٹربھٹو کے باغی ساتھی ان کے عہد اقتدار میں قید رہے ۔ ان کی ڈاڑھیاں نوچی گئیں ٗ سخت گرمیوں میں انکے کمروں کی بجلی بند کردی جاتی اور سخت سردی میں انہیں رات کو کھلے دروازوں والے یخ بستہ برآمدے میں سونے پر مجبور کیاجاتا۔تنگ کرنے کے لیے لوہے کے دروازوں اور پلنگوں میں بجلی کی رو چھوڑ دی جاتی ۔ راتوں کو نیند سے محروم رکھاجاتااور انکے سرہانے زور زور سے کنستر بجائے جاتے ۔ ایک بار جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے ان بیہودگیوں کے خلاف دبے لفظوں میں احتجاج کیا تو مسٹر بھٹو کے وزیر جیل خانہ جات نے ان کی اتنی بے عزتی کی کہ انہیں دل کا دورہ پڑ گیا ۔
جیل میں قیدی کی شناخت اس کے اصل نام سے زیادہ قیدی نمبر کے حوالے سے ہوتی ہے ۔ ڈیوڑھی کا اندرونی دروازہ عبور کرنے کے بعد مسٹر بھٹو پر بھی اس نمبر کاٹھپہ لگ چکا تھا ۔ ان کانمبر 1772تھا اب انہیں نام کی بجائے اس نمبر سے ہی پکارا جانے لگا ۔قیدی نمبر 1772کو برسوں سے غیر ملکی پانی پینے کی عادت تھی ٗ یہ پانی منرل واٹر کہلاتا تھا جو سربند ڈبوں میں بیرون ملک سے بطور خاص منگوایا جاتا ۔جیل میں آنے کے بعد اسی غیر ملکی پانی کی فرمائش کی گئی۔ چند دن یہ پانی فراہم کیاجاتارہا پھر انہیں کہہ دیاگیا کہ وہ جیل کا ہی پانی استعمال کریں جس طرح دوسرے قیدی کرتے ہیں ۔لاہور ہائی کورٹ میں فرد جرم عائد ہونے کے بعدسماعت کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔جس کی تفصیل اختصار کی وجہ سے یہاں درج نہیں کی جارہی ۔
18 مارچ 1978ء آٹھ بج کر بیس منٹ پر لاہور ہائی کورٹ فل بینچ کے فاضل ارکان کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ۔چند منٹ تک کمرہ عدالت میں خاموشی چھائی رہی ٗجیسے کائنات کی گردش تھم گئی ہو ۔ پھر اچانک اس سناٹے میں چیف جسٹس مسٹر جسٹس مولوی مشتاق حسین کی آواز گونجی ۔ انہوں نے پیراگراف نمبر 619پڑھنا شروع کردیا۔قیدی نمبر 1772ذوالفقار علی بھٹو ٗ میاں عباس ٗ غلام مصطفی ٗ ارشد اقبال اور رانا افتخار کے لیے سات سات سال قید بامشقت اور سزائے موت ۔
فل بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ملزمان کے خلاف تمام الزامات مکمل طور پر ثابت ہوچکے ہیں ۔احمد رضا قصوری کو موت کے گھاٹ اتارنے کی سازش ٗ نواب محمداحمد خان کے قتل کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی ۔ مقدمے کا بڑا ملزم (بھٹو )ہی قتل کی سازش کا اصل ملزم ہے اس نے ایف ایس ایف کو ایک ایسے شخص سے بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا جس سے اس کی ذاتی دشمنی تھی ۔اس طرح اس نے فورس کوکرائے کا قاتل اور جرائم پیشہ بنادیا ۔
مکمل فیصلہ 405صفحات پر مشتمل تھا اس کے 627پیراگراف ہیں ۔ مسٹرجسٹس مولوی مشتاق حسین نے اس کے آخری پیرے کمرہ عدالت میں پڑھے ۔ فیصلہ مسٹر جسٹس آفتاب حسین نے تحریر کیا اور بینچ کے باقی ارکان چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین ٗ مسٹر جسٹس ذکی الدین پال ٗ مسٹر جسٹس محمد شمس الحق قریشی اور مسٹر جسٹس گلباز خان نے اس سے مکمل اتفاق کیا ۔ قتل اور سازش کے بڑے ملزم بھٹو کو پچیس ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی ۔ یہ رقم مقتول کے خاندان کو ادا کی جائے گی ۔عدم ادائیگی کی صورت میں مزید چھ ماہ قید سخت بھگتنا ہوگی ۔مسعود محمود کو وعدہ معاف گواہ بننے پر معافی دے دی گئی ۔فیصلہ سننے کے بعد قیدی نمبر 1772کی حالت غیر ہوگئی وہ دیر تک سکتے کی حالت میں کھڑا رہا ۔ پھر پولیس کے ہمراہ جیل روانہ ہوگیا ۔جیل پہنچ کر قیدی نمبر 1772 کو سزائے موت والے مجرمو ں کی کوٹھڑی میں منتقل کردیا گیا ۔
25 مارچ 1978ء کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی گئی ۔ تو قیدی نمبر 1772 کو بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی پہنچا دیاگیا۔مختلف تاریخ پر قیدی نمبر 1772 اور ان کے وکیل یحی بختیار کی جانب سے دلائل جاری رہے ۔ بالآخر 6 فروری 1979ء کو فیصلہ سنانے کا وقت آپہنچا۔ گیارہ بج کر پانچ منٹ پر فاضل جج صاحبان مسٹر جسٹس عبدالحلیم ٗ مسٹر جسٹس محمداکرم ٗ مسٹر جسٹس ایس انوار الحق ٗ مسٹر جسٹس دراب پٹیل اور مسٹر جسٹس صفدر شاہ عدالت میں آئے ۔سب سے آخر میں چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے قدم رکھا ۔کمرہ عدالت میں موجودلوگوں نے اپنے سانس روک لیے اور فیصلہ سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھ گئے ۔ اگلے ہی لمحے کمرہ عدالت کے گمبھیر سناٹے میں چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی آواز گونجی ۔انہوں نے آرڈر آف دی کورٹ پڑھنا شروع کیا۔ جو صرف تین پیرا گراف پر مشتمل تھا ۔ چیف جسٹس کو اسے پڑھنے میں بمشکل دومنٹ لگے ۔ کثرت رائے سے اپیلیں مسترد کردی گئیں ۔ پہلے چیف جسٹس نے آرڈر آف دی کورٹ پر دستخط کیے پھر باقی ججز صاحبان نے دستخط کیے ۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے مقدمے کی سماعت آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے کی ہے ۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ مسٹر بھٹو نے ایف ایس ایف کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جو وزیر اعظم کے اختیارات کا شیطانی استعمال ہے۔ مقدمہ کے محرکات نہ سیاسی ہیں اور نہ اس کے پیچھے کوئی عالمی سازش کارفرما ہے ۔ ہائی کورٹ نے جو فیصلہ کیا وہ شہادت اور قانون کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد صحیح پایاگیا ۔( رپورٹ : محمد شریف کیانی قومی ڈائجسٹ لاہور مارچ 1979)
فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی جسے 14 فروری 1979ء کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیاگیا۔ 24 فروری کو سماعت کا آغا ز ہوااور 18 مارچ 1979ء کو سماعت مکمل ہوگئی ۔ چیف جسٹس مسٹر جسٹس انوار الحق نے ہفتے کے روز صبح دس بجے سپریم کورٹ کے مین کورٹ روم میں فیصلے کااعلان کیا۔ جس کے مطابق نظرثانی کی اپیل مسترد کردی گئی ۔نظرثانی کی اپیل مسترد ہونے کے بعد قیدی نمبر 1772کے کمرے سے آرام و آسائش کی تمام سہولتوں ہٹا لی گئیں ۔جن میں نوار کا پلنگ ٗ میز ٗ کرسی ٗ ریفریجٹر ٗاٹیچی کیس ٗ شیو کا سامان ٗ قلم ٗ پنسل ٗ کاغذ وغیرہ شامل تھے ۔قیدی سے ذاتی استعمال کے کپڑے واپس لے کر پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کے کپڑے فراہم کردیئے گئے جن میں بٹن اور ازار بند نہیں ہوتا تاکہ قیدی اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے یا خود کشی نہ کرسکے ۔موسم کے مطابق یہ لباس ایک نیکر ٗ بنیان اور ٹوپی پر مشتمل تھا۔ اتنی رعایت ضرور برتی گئی کہ انہیں یہ لباس پہننے پر مجبور نہیں کیاگیا۔ قیدی نمبر 1772نے سونے کے لیے گدا زمین پر ہی بچھا لیا ۔اس کے علاوہ قیدی کے کمرے سے شیو کا سامان بھی اٹھالیاگیا کیونکہ وہ خود ہی اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہا تھا ۔ مسٹر بھٹو کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی ۔اسی دوران عبد الحفیظ پیرزادہ کے ساتھ گفتگو کے دوران قیدی کی خواہش تھی کہ عبدالحفیظ پیرزادہ اپنی جانب سے صدر پاکستان کو رحم کی اپیل کریں ۔لیکن پیرزادہ کا خیال تھا کہ اپیل کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ عالمی دباؤ کے آگے جنرل ضیاء الحق زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے اور اندرونملک میں ہنگاموں کے خطرے کے پیش نظر قیدی کی سزا میں یقینی طور پر کمی کردی جائے گی ۔وقت تیزی سے گزرتا رہا ۔ 31 مارچ کو رحم کی اپیل کا وقت بھی گزر رہا تھا۔اب آخری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔پھر قیدی کے ایما پر حفیظ پیرزادہ نے دفعہ 45 کے تحت صدر مملکت کے نام ایک درخواست دے دی۔ یہ درخواست ایک خصوصی نمائندے نے رات نو بجے صدر کے سیکرٹریٹ میں جمع کروائی ۔دوسری جانب پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے بھی اسی روز صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق سے مسٹر بھٹو کے لیے رحم کی اپیل کردی۔بھٹو کی جان بخشی کی اپیل کرنے والوں میں ان کی سوتیلی بہن بیگم شہر بانو امتیاز بھی شامل تھیں ۔2 اپریل کو جیل حکام نے بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اطلاع بھجوائی کہ وہ آکر مسٹر بھٹو سے ملاقات کرجائیں ۔ہوسکتا ہے یہ ان کی آخری ملاقات ہو لیکن مسٹر بھٹو کو یقین نہیں تھا ۔ وہ سمجھتے رہے کہ جیل حکام انہیں خوف زدہ کرکے ان کے اعصاب توڑنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے دستخطوں سے رحم کی اپیل کروائی جاسکے ۔اس خوش فہمی میں جہاں بھٹو کے دوستوں کا عمل دخل تھا وہاں مسٹر رنگون والا کا علم دست شناسی بھی شامل تھا ۔مسٹر رنگون والا کے بھٹو فیملی سے پرانے مراسم تھے اور انہیں دست شناسی اور علم نجوم سے شغف تھا ۔10جنوری 1970ء کا ذکر ہے کہ مسٹر بھٹو سے ان کی راولپنڈی کے ہوٹل میں ملاقات ہوئی۔ مسٹر بھٹو نے ان سے پوچھا بھئی رنگون والا ۔ یحی خان کب رخصت ہوگا اور ہمیں اقتدار کب ملے گا ؟رنگون والانے بھٹو کا ہاتھ دیکھا اور کچھ جمع تفریق کرنے کے بعد کہا میرے حساب کے مطابق ڈیڑھ سال سے پہلے آپ کو حکومت نہیں مل سکتی ۔حسن اتفاق سے مسٹر رنگون والا کی یہ پیشین گوئی درست نکلی جس سے بھٹو معتقد ہوگئے ۔مختلف اوقات میں ملاقاتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ 1976ء کانیا سال شروع ہوگیا ۔ رنگونوالا نے مسٹر بھٹو کو بتایا کہ آپ کا ستارہ گردش میں آنے والا ہے ٗ عجب نہیں کہ آپ کواقتدار سے الگ ہونا پڑے ۔ مسٹر بھٹو کو یہ بات پسند نہ آئی اور وہ ناراض ہوگئے مسٹر رنگوان والا کو اپنی جان بچانی مشکل ہوگئی ۔پھر جب 5 جولائی 1977ء کو فوج نے اقتدار سنبھالا اور مسٹر بھٹو نواب محمداحمد خان قتل کیس میں گرفتار ہوئے تو ایک بار پھر رنگون والا کو تلاش کرکے بھٹو کے پاس لے جایاگیا ۔رنگون والا نے پھر بھٹو کا ہاتھ دیکھا اور تھوڑی سی جمع تفریق کے بعد یقین دلایا کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو پھانسی نہیں لگا سکتی ۔آپ کی موت کم ازکم پھانسی سے نہیں ہوگی ۔اس پیشین گوئی نے بھٹو کے اعتماد میں حد درجہ اضافہ کررکھا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کو پھانسی کی سزا نہیں دی جاسکتی ۔
بہرکیف آخری ملاقات میں جب بے نظیر بھٹو ٗ رخصت ہوتے ہوئے زار و قطار رو رہی تھیں تو بھٹو نے کہا گبھراؤ نہیں یہ مجھے ہاتھ نہیں لگاسکتے ۔ مجھے ڈراکر معافی نامہ لکھوانا چاہتے ہیں۔اس اعتماد کی ایک جھلک ان کی اپنی کتاب "اگر مجھے قتل کردیاگیا"میں بھی ملتی ہے اس کی چند سطریں ملاحظہ ہوں ۔ مسٹربھٹو اپنی اس کتاب میں رقم طراز ہیں "میں ایک قوم بنانے کے لیے پیداہواتھا عوام کی خدمت کے لیے پیدا ہواتھا ٗ میں موت کی کوٹھڑی میں سسک کر دم توڑنے کے لیے پیدانہیں ہوا اور نہ کسی چالاک انسان کی دشمنی کانشانہ بن کر پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے لیے پیدا ہواہوں ۔"
مسٹر بھٹو سمیت نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل کے تمام مجرموں کی جاں بخشی کی اپیلیں حتمی طور پر مسترد ہوچکی تھیں ۔ فیصلہ کرلیاگیا تھا کہ سب سے پہلے بھٹو کو پھانسی دی جائے گی۔اس کے باوجود کہ پھانسی کے انتظامات شروع کردیئے گئے تھے لیکن تاریخ اور وقت کے معاملے میں غیر معمولی راز داری برتی جارہی تھی ۔لیکن حالات بتا رہے تھے کہ جلد کچھ ہونے والاہے ۔دن بھر ڈسٹرکٹ جیل میں سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئر راحت لطیف ٗ ڈپٹی کمشنر سعید مہدی ٗ کرنل رفیع ٗ ایس ایس پی جہاں زیب برکی اور آئی جی جیل خانہ جات کی آمدورفت اور اجلاس اور آخر میں جیل حکام سے ہر طرح کا ٹیلی فونی رابطہ منقطع ہوجانا ۔ یہ ساری باتیں ایک ہی سمت اشارہ کررہی تھیں ۔آخر وہ وقت نزدیک آپہنچا جس کی پیش گوئی مسٹر بھٹو کے ایک اور شکار ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے اپنی شہادت سے تین دن قبل اپنی ایک تقریر میں کی تھی۔ ڈاکٹر نذیر نے ڈیرہ غازی خان میں تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ ایوب خان کاانجام دردناک ہو ا ٗ یحی خاں کاانجام عبرت ناک ہوا ٗ لیکن بھٹو تیراانجام درد ناک ہوگا ٗ عبرت ناک بھی اور شرمناک بھی ۔یہ اور بات ہے کہ میں تمہارے انجام کو دیکھنے کے لیے زندہ رہوں یا نہ رہوں ۔
اسی روز لاڑکانہ سے 19میل دور واقع گاؤں میرپوربھٹو میں لاڑکانہ کا تحصیل دار مسٹر بھٹو کے چچاسردار نبی بخش بھٹو کے پاس آیا ان سے نو ڈیرو کے قریب گڑھی خدا بخش میں واقع بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان کے متعلق معلومات حاصل کیں اور درخواست کی کہ ساتھ چل کر وہ جگہ دکھائیں جہاں بھٹو کی قبر بنوانا پسند کریں گے ۔
سردار نبی بخش بھٹو یہ سن کر پریشان ہوگئے دوسروں کی طرح انہیں بھی یقین تھا کہ مسٹر بھٹو کو پھانسی نہیں ہوگی ۔
تارا مسیح ایک جلاد ہے جو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان کے ساتھ مسیحیوں کی بستی میں رہتا ہے ۔ اس کے تین بھائی ہیں اور تینوں ملک کی بیس جیلوں میں جلاد کے فرائض ہی انجام دیتے ہیں ۔یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے ٗ ان کے دادا پہاڑی مل نے یہ کام مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں شروع کیاتھا ۔ یکم اپریل کو بہاول پور میں اپناکام ختم کرنے کے بعد تارا مسیح ابھی ملتان پہنچا ہی تھا کہ لاہور سے اطلاع ملی کہ تارا کو فورا یہاں بھیج دو ۔ چنانچہ وہ اسی وقت ریل گاڑی میں سوار ہوکر لاہور پہنچا اور کوٹ لکھپت جیل میں اپنی آمد کی رپورٹ دی ۔ اسے دوبارہ جیل سے باہر جانے سے منع کردیاگیا اور کہاگیا کہ ایک ضروری کام ہے وہ یہیں موجود رہے ۔شام کے وقت راولپنڈ ی سے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات چوہدری نذیر اختر کا فون آیا انہوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی کہ تارا مسیح کو آج ہی راولپنڈی پہنچایاجائے۔ یہ دو اپریل کادن تھا۔تارا مسیح کو بتائے بغیر اس کام کے لیے لاہور سے پنڈی لے جانے کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدا گیا لیکن تارا مسیح نے ہوائی جہا زمیں یہ کہتے ہوئے سفر کرنے سے انکار کردیا کہ اسے ڈر لگتا ہے ۔ پھر ایک ہیڈوارڈن کے ہمراہ بذریعہ ویگن راولپنڈی بھجوایا گیا ۔اسے بستی میں جانے اور اپنے عزیزوں کو اطلاع دینے کی مہلت بھی نہ ملی ۔ تاریخ مسیح کو ابھی تک کچھ نہیں بتایاگیا کہ اسے راولپنڈی میں کیا کرنا ہے ۔تاہم اس کی نقل و حرکت کے بارے میں جس طرح رازداری اور احتیاط برتی جارہی تھی اس سے اسے کچھ اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ اسے کسی اہم شخصیت کو پھانسی دینی ہے ۔ 2 اور 3 اپریل کی درمیانی شب پچھلے پہر وہ ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کی ڈیوڑھی میں داخل ہوا تو اسے فورا ہی بڑے دروازے کے قریب ایک کوٹھڑی میں بند کردیاگیا اور ممانعت کردی گئی کہ وہ نہ کوٹھڑی سے باہر جائے اور نہ کسی کے سامنے آئے ۔
3 اپریل شام چار بجے کے قریب پولیس کے چند آدمی بھوسہ منڈی راولپنڈی میں واقع مسجد مولانا غلام غوث ہزاروی پہنچے اور وہاں کے خادم حیات محمد سے رابطہ کیا اور انہیں کہا گیا کہ ایک میت کو غسل دینے کے لیے وہ ساتھ چلیں ۔ وہ ان کے ساتھ ہولیے ۔ پولیس انہیں ساتھ لیے گھومتی رہی۔ کبھی انہیں تھانے میں بندکردیاجاتا تو کبھی ضلع کچہری کے کسی کمرے میں بٹھادیاجاتا ۔ رات نو بجے کے قریب انہیں تھانہ چھاؤنی لے جایا گیا وہاں انہیں ایک گھنٹہ انتظارکرنے کے بعد اسے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی پہنچادیاگیا۔
تارا مسیح اپنی کوٹھڑی میں لیٹا نیم غنودگی کے عالم میں نہ جانے کیا سوچ رہا تھا کہ کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نئے آدمی کو اندر لاکر بندکردیاگیا ۔ تارا مسیح نے آنکھ کھولی اور اس کے سراپا کا جائزہ لیا ۔ نووارد کے چہرے پر ڈاڑھی تھی ۔ تارا مسیح کو جاگتے دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھنے لگا۔ تمہیں پتہ ہے کس میت کو غسل دینا ہے ؟ شام چار بجے سے پولیس والے مجھے ساتھ لیے پھر رہے ہیں لیکن بتاتے نہیں کہ میت کہاں ہے ۔
دن کے ہنگامے سرد ہوئے اور شام کی تاریکی کائنات کی ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی تو جیل حکام دوبارہ مسٹر بھٹو کے پاس پہنچے ۔ سپرنٹنڈنٹ جیل نے ان سے کہا "آج رات آپ کو پھانسی دے دی جائے گی۔"مسٹر بھٹو منہ سے کچھ نہ بولے ٗ خاموشی سے ٹکٹکی باندھے سپرنٹنڈنٹ جیل کو گھورتے رہے ۔ ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی گھمبیر سنجیدگی دیکھی تو انہیں پہلی بار لمحہ بھر کے لیے محسوس ہوا کہ یہ خبر درست بھی ہوسکتی ہے تاہم اب بھی ان کا ردعمل یہی تھا کہ انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ڈاکٹر نے قاعدہ کے مطابق ان کاطبی معائنہ کیا اور حکام کو بتایا کہ مجرم کی صحت بالکل ٹھیک ہے ٗ اسے پھانسی دی جاسکتی ہے ۔سپرنٹنڈنٹ جیل اور دوسرے عہدے دار واپس جانے لگے تو مسٹربھٹو نے کہا مجھے شیو کا سامان فراہم کیاجائے ۔ انہوں نے کئی دن سے شیو نہیں کی تھی جس سے داڑھی کافی بڑھی ہوئی تھی ۔ مسٹربھٹو نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انگریز ی میں کہا "میں اس داڑھی کے ساتھ نہیں مرنا چاہتا۔"
انہوں نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ انہیں ایک جائے نماز اور تسبیح بھی فراہم کی جائے ۔یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اس طرح کی خواہش ظاہر کی ۔ ورنہ اس سے پہلے ایک موقع پر جب اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ مسٹر بھٹو نماز پڑھنے لگے ہیں تو انہوں نے جیل حکام سے نہایت سختی کے ساتھ اس خبر کی تردید کرنے کے لیے کہا ۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور ان میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی ۔ اس وقت انہیں قرآن پاک کا ایک نسخہ بھی فراہم کیاگیا لیکن کسی نے انہیں ایک دن بھی اس کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا۔ بہرکیف تمام مطلوبہ چیزیں انہیں فراہم کردی گئیں ۔ شیو بنائی پھر آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کسی قدر مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولے اب ٹھیک ہے ۔ جائے نماز کو انہوں نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ وہ اگلی صبح وہیں اور اسی حالت میں پڑی ہوئی ملی ٗ جہاں جیل کے عملے نے اسے رکھا تھا ۔ تسبیح البتہ مسٹربھٹو نے اٹھالی لیکن کچھ پڑھنے یا ورد کرنے کے بجائے انہوں نے اسے اپنے گلے میں ڈال لیا ۔
آج پہلی رات ہے جب شام کے کھانے کے بعد مسٹر بھٹو نے کافی پی نہ سگار سلگایا ۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ان کی کوٹھڑی میں موجود تھیں ۔ انہوں نے کھانا بھی معمول کی نسبت کم کھایا ۔ اور کھانے کے بعد چہل قدمی بھی نہیں کی۔وہ فورا فرش پر بچھے فو م کے گدے پر لیٹ جاتے ہیں ۔جب کوئی نگران ادھر سے گزرتا ہے ٗ وہ گردن گھما کر اسے دیکھتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل ہیں ۔ شام کو جیل حکام نے جب کہا کہ وہ اپنی وصیت تیار کرلیں تو انہوں نے کاغذ اور قلم مانگا اور لکھنا شروع کردیا۔ دوصفحے لکھ چکے تو نہ جانے کیا خیال آیا اور انہوں نے کاغذپھاڑ دیئے پھر مشقتی سے کہا انہیں جلادو۔ شاید ایک بار پھر یہ خیال غالب آگیا تھا کہ ان کے ساتھ ڈرامہ کیاجارہاہے اور اب یہ تحریر لکھواکر ان کے اعصاب کی شکستگی کااشتہار دینامقصود ہے۔ تاہم جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ٗان کے دل میں ایک بے نام سا خوف اور اندیشہ پیدا ہوتاجارہا تھا ۔
رات خاموش اور قدرے خنک تھی راولپنڈی میں ایک روز قبل بارش ہوئی تھی ۔ یہ اسی کی خنکی تھی جیل کی چاردیواری سے باہر خاموشی اور ویرانی کا راج تھا لیکن جیل کے اندر خلاف معمول رات کے اس وقت بھی غیر معمولی چہل پہل تھی ۔ جیل کے احاطے میں انتظامیہ ٗ پولیس اور محکمہ جیل کے بے شماراعلی افسر موجود تھے اور پھانسی گھر کے انتظامات کابار بار جائزہ لیا جارہاتھا ۔ زنانہ احاطے سے پھانسی گھر تک پورے راستے میں تقریبا دو سو گیس لیمپ جلا کر رکھ دیئے گئے تاکہ اگر بجلی اچانک چلی بھی جائے تو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ایک بج کر چودہ منٹ پر جیل کا ایک ذمہ دار افسر مسٹر بھٹو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور انہیں بتایا کہ ان کے نہانے کے لیے گرم پانی تیار ہے وہ اٹھ کر غسل کرلیں ۔ مسٹر بھٹو نیم غنودگی کے عالم میں گدے پر لیٹے ہوئے تھے ٗ سنی ان سنی کرکے چپکے سے لیٹے رہے ۔ تاہم ان کے دل کی دھڑکنیں بے اختیار تیز ہورہی تھیں اور یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں پہلی مرتبہ مکمل طور پر یقین ہوا کہ انکی زندگی کی گھڑیاں سچ مچ ختم ہونے والی ہیں اور اگلی صبح کا سورج دیکھنا انہیں نصیب نہیں ہوگا ۔ یہ سوچ کر ان کے اعصاب جواب دے گئے۔ ان پر سکتے کی سی حالت طاری ہوگئی ۔ دیکھنے والے ڈر گئے کہ کہیں ان کی زندگی کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔ یا انہوں نے کوئی زہریلی چیز نہ کھالی ہو ۔ چنانچہ فوری طور پر ڈاکٹر کو بلوایا گیا ۔ڈاکٹر نے انہیں چیک کیا ۔ اسٹیتھ سکوپ سے دل کی دھڑکن چیک کی ٗآنکھوں کی پتلیوں کا جائزہ لیا اور بتایا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں مسٹربھٹو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔
اطراف کی کوٹھڑیوں میں بند سارے قیدی بلند آواز سے تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھے اور جیل کی ساری فضا ان کی آواز سے گونج رہی تھی ۔ یہ انتظام خصوصی طور پر اس وقت کیا جاتا ہے جس کسی قیدی کو جیل میں پھانسی دی جاتی ہے ۔
رات کے ڈیڑھ بجے جیل کے بڑے دروازے کے پاس والی کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نے تارا مسیح کو آواز دی ٗ تارا اٹھو تمہارا کام شروع ہونے والا ہے ۔ تارا مسیح کوٹھڑی سے نکل کر پھانسی گھر کی طرف روانہ ہوا تو اسے پھانسی گھر کے چاروں طرف بے شمار لوگ مستعد کھڑے نظر آئے ۔ان میں کئی وردیوں والے بھی تھے اور کئی وردیوں کے بغیر سفید کپڑوں میں بھی ۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے پر سوچ اور فکر کے گہرے سائے لہرائے۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔ اس نے ڈیڑھ انچ قطر کا رسہ پول سے باندھا ٗ اپنی مخصوص گرہ لگائی اور انہیں کھینچ کر دیکھ لیا کہ ٹھیک طرح سے کام کرتا ہے اس کام میں ایک اور جلاد نے بھی اس کی مدد کی ۔
پونے دو بجے سپرنٹنڈنٹ جیل نے مسٹر بھٹو کوموت کے وارنٹ کامتن پڑھ کر سنایا اب انہیں سو فیصد یقین کرنا پڑا کہ جیل حکام ان سے کوئی ڈرامہ نہیں کررہے ٗ معاملہ واقعی "سیریس "ہے ۔ اس عالم میں ان کی حالت دیدنی تھی ۔ دل بے اختیار بیٹھا جارہا تھا۔ چند لمحے تصویرحیرت بنے وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کامنہ تکتے رہے۔ پھر قوت ارادی سے کام لے کر انہوں نے اپنے بکھرے ہوئے حواس اور ٹوٹے ہوئے حوصلے کو یکجا کیا اور آہستہ سے بولے "مجھے وصیت لکھنی ہے کاغذ چاہیئے"انہیں بتایا گیا کہ اب وصیت لکھنے کامرحلہ گزر چکا ہے ۔ شام کو انہوں نے وصیت لکھنے سے انکار کردیاتھا ۔ اب یہ انتظام ممکن نہیں ۔ پھانسی کے لیے دو بجے کاوقت مقرر تھا اور اب دیر ہوتی جارہی تھی۔
سپرنٹنڈنٹ جیل بلیک وارنٹ کامتن سنانے کے بعد انتظامات کا آخری جائزہ لینے کے لیے پھانسی گھر کی طرف چلے گئے ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ٗ بعض اعلی فوجی ور سول افسر اور مسٹر بھٹوموت کی کوٹھڑی میں رہے ۔ پھانسی پانے والے مجرموں کو عام طور پر چست قسم کامخصوص لباس پہنایا جاتاہے لیکن مسٹر بھٹو نے یہ لباس نہیں پہنا ۔ وہ شلوار قمیض میں ہی ملبوس رہے اور پاؤں میں چپل تھی ۔ انہوں نے نہانے سے بھی انکار کردیا ۔ ان کی ٹانگیں بے جان سی ہورہی تھیں اور ان میں کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہیں رہی ۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک مایوس کن منظر تھا۔ سب ان سے بلند حوصلے اور مضبوط اعصاب کی توقع رکھتے تھے ۔
ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ جیل نے مسٹر بھٹو سے چند قرآنی آیات کے ورد کے لیے کہا .... مسٹر بھٹو خاموش رہے۔ اب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل نے ایک ہیڈ وارڈن اور چھ وارڈرن کو طلب کیا اور ان کی مدد سے مسٹر بھٹو کے دونوں ہاتھ پشت پر لے جاکر ایک رسی سے مضبوط باندھ دیئے گئے ۔ اس کے بعد دو وارڈنوں نے مسٹر بھٹو کو دائیں اور بائیں بازووں سے پکڑا اور انہیں تختہ دار کی طرف لے چلے ۔ مسٹر بھٹو میں چلنے کی ہمت نہیں تھی ٗ چند قدم کے بعد ہی ان کا سانس بری طر ح پھول گیا اور ٹانگیں جواب دے گئیں ۔ قریب تھا کہ وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑتے ۔ اردگرد کھڑے وارڈنوں نے لپک کر تھام لیا ...... پتہ چلا مسٹر بھٹو صدمے سے نڈھال ہوگئے ہیں ۔ متعلقہ عملے نے انہیں سہارادے کر کھڑا رکھنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ ان کی ٹانگیں بالکل ہی بے جان ہوچکی تھیں ۔ایک سٹریچر منگوا کر انہیں اس پر ڈالا گیا اور دو آدمیوں نے سٹریچر اٹھالیا۔ مشکل یہ تھی کہ وہ کبھی دائیں طرف لڑھک جاتے تو کبھی بائیں طرف ۔ چنانچہ سٹریچر کو چاروں طرف سے پکڑا گیا اور یوں مسٹر بھٹو کو پھانسی کے تختے کی طرف لے جایاگیا ۔ سٹریچر اٹھا کر چلنے والوں کے ہونٹوں پر کلام اﷲ کے مقدس الفاظ تھے ۔ساری جیل تلاوت قرآن پاک کی آواز سے گونج رہی تھی ۔تلاوت کلام الہی کرنے والے موت کے چبوترے کے گرد بھی کھڑے تھے کہ یہی جیل کادستور ہے ۔
پھانسی کے چبوترے کے پاس پہنچ کر (جہاں مسٹر بھٹو کو پھانسی دی جانی تھی)سٹریچر رکھ دیاگیا اور انہیں اٹھنے کے لیے کہاگیا ۔ مسٹر بھٹو بڑی مشکل سے اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے اس وقت انہیں اپنی بیوی کو یاد کیا اور مدھم سی آواز میں یہ الفاظ سنے گئے ۔
I am sorry for my wife she will be left alone
مسٹر بھٹو کو تختوں پر کھڑا کیا جاچکا تھا کہ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں دھیرے سے کہا یہ تکلیف دیتا ہے ان کا اشارہ رسی کی طرف تھا جس سے ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔تارہ مسیح لپک کر آگے بڑھا اور اس نے رسی ڈھیلی کردی ۔
گھڑی کی سوئی دو بجے سے آگے بڑھ چکی تھی۔ تارا مسیح نے ان کے چہرے پر سیاہ نقاب چڑھانے کے بعد پھندا ان کے گلے میں ڈال دیا ٗ دونوں پیروں کو ملا کر ستلی بھی باندھی جاچکی ٗ تارا مسیح تختوں سے اتر آیااور اب اس لمحے کا منتظر تھا کب سپرنٹنڈنٹ جیل ہاتھ کے اشارے سے اسے لیور کھینچنے کاحکم دیں گے ۔تختہ کھینچنے میں صرف چند ساعتیں باقی تھیں کہ مسٹر بھٹو نے انتہائی کمزور آواز میں کہا Finish it سپرنٹنڈنٹ جیل کی نظریں اپنی ریڈیم ڈائل گھڑی پر جمی تھیں ۔ یکایک انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے نیچے گرالیا ۔ یہ اشارہ تھا لیور دبانے کا ۔ تارا مسیح کے مشاق ہاتھوں نے بڑی پھرتی سے لیور کھینچ دیا ۔ دونوں تختے ایک آواز کے ساتھ اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے اور بارہ فٹ گہرے کنویں میں اندر کی جانب کھل چکے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک ذہین و فطین انسان جو اپنی زندگی میں شر کی قوتوں سے خود بھی مسحور و مغلوب رہا اور دوسروں کو بھی مسحورو مغلوب کرتا رہا ..... اور جس نے اپنی طرز کے ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی ...... اپنے پورے عہد اور اپنی افتاد طبع کے ساتھ خاموشی سے موت کے اس اندھے کنویں میں جاگرا ۔اﷲ اکبر۔
مسٹر بھٹو کو بڑا زعم تھا کہ تاریخ پر ان کی نظر بڑی گہری ہے اور ان کا تاریخ کا مطالعہ بہت وسیع ہے لیکن افسوس وہ نوع انسانی کی تاریخ کا یہ سب سے اہم اور بڑا سبق نہ دیکھ سکے۔ `
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1337143926340415