دو سینئر ترین قاضیوں نے نواز شریف کو سخت الفاظ میں مجرم قرار دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے بعد نواز شریف کس طرح وزیراعظم رہ سکتا ہے؟
قانونی و آئینی طور پر نواز شریف اب سپریم کورٹ سے سزا یافتہ مجرم ہے۔ اس فیصلے پر الیکشن کمیشن کو از خود نواز شریف کو برخاست کرنا چاہیے۔
دو قاضیوں کی طرف سے نواز شریف کو معزول کرنے کی سزا درگزر یا ملتوی نہیں کی جاسکتی۔ نواز شریف اب ملزم نہیں بلکہ سزا یافتہ مجرم ہے۔
قوم کو سپریم کورٹ سے یہ بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی گرمیوں کی چھٹیاں منسوخ کریں۔ کیا دیگر سرکاری ملازم تین ماہ کی چھٹیاں لیتے ہیں؟
گرمیوں کی چھٹیاں سکول کے بچے لیتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ایک قاضی کیلئے چھٹیوں پر جانا حرام ہے، جبکہ ملک و قوم کا مستقبل داﺅ پر لگا ہو۔
سٹیٹ بینک، نیب، ایس ای سی پی کے سربراہان بھی نواز شریف کے چنے ہوئے چہیتے ہیں۔ ایف آئی اے کے ڈی جی بے اختیار اور ریٹائر ہونے والے ہیں۔
پاکستانی قوم کو جی آئی ٹی کے تمام ممبران پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی، ان کا سخت احتساب کرنا ہوگا۔ اب نواز شریف کی یہی آخری امید ہے۔
پی ٹی آئی اور شیخ رشید کو فوری طور پر الیکشن کمیشن میں نواز شریف کی معزولی کے لیے درخواست دینی چاہیے، ورنہ ایک اور دھرنہ!
اب نواز شریف کا سارا آسرا سپریم کورٹ کی چھٹیوں، جی آئی ٹی میں اپنے چہیتے پالتو داخل کرنا اور الیکشن کمیشن میں اپنی معزولی کو روکنے پر ہے۔
قاضیوں نے مجموعی طور پر اچھا فیصلہ کیا ہے، مگر نواز کو معطل نہ کرکے قوم سے ظلم کرگئے ہیں۔ اب 'گاڈ فادر' پوری ریاست کی طاقت استعمال کرےگا
ڈان لیکس کا فیصلہ بھی چند روز میں آجائے گا، مگر اس میں صرف چھوٹے مہرے ہی مارے جائیں گے۔ مریم کا نام تو آئے گا مگر سزا کوئی نہیں۔
اب نواز شریف سزا یافتہ ہے، تفتیش جاری ہے، اسے ساٹھ دن کی ضمانت ملی ہے، گو کہ ابھی بھی یہ وزیراعظم ہے، مگر قانونی و اخلاقی طور پر ناجائز۔
دو قاضیوں نے معزول کرنے کا حکم دیا ہے۔ تین نے معزول ہونے سے روکا نہیں ہے، صرف مزید تفتیش کا حکم دیا ہے۔ قانونا نواز شریف معزول ہوچکا ہے
جسٹس آصف سعید کھوسہ
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے نواز شریف اپنی ملکیتوں اور لندن کی جائیدادوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس قوم، پارلیمنٹ اور عدالت کے سامنے دیانت دار نہیں رہے۔
’اس بد دیانتی کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف آئین کی شق 62 اور عوامی نمائندگان کے قانون 1976 کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن رہنے کے اہل نہیں رہے۔‘
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے نوٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ میاں نواز شریف کو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے نااہل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے جس کے نتیجے میں وہ وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار پائیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صدر پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
جسٹس کھوسہ نے انسداد بدعنوانی کے ادارے نیب کو بھی حکم جاری کیا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے قوانین کے تحت کارروائی کرے۔
اس کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ نواز شریف کے خلاف اپنے سابق ڈائریکٹر جنرل رحمٰن ملک (جو اب پیپلز پارٹی کے سینٹیر ہیں) کی جانب سے 1994 میں درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش، شواہد اور تفصیل بھی ضرورت پڑنے پر نیب کو فراہم کرے۔
جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں نیب کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ میاں نواز شریف کے بچوں کے نام پر قائم کردہ تمام جائیدادوں اور کاروبار کا بھی جائزہ لے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ بچے اپنے والد کے لیے یہ جائیدادیں اور کاربار تو نہیں چلا رہے؟
جسٹس کھوسہ نے نیب کے سربراہ کے بارے میں کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے معامہ میں قمر زمان چوہدری کا کردار مشکوک ہے اس لیے وہ ان فریقین کے سلسلے میں ہونے والی کسی تفتیش میں کسی قسم کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔
جسٹس کھوسہ نے نیب کو وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کی بریت کے فیصلے کو ختم کرتے ہوئے منی لانڈرنگ معاملے میں کارروائی کا حکم دیا ہے۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1291212574266884
قانونی و آئینی طور پر نواز شریف اب سپریم کورٹ سے سزا یافتہ مجرم ہے۔ اس فیصلے پر الیکشن کمیشن کو از خود نواز شریف کو برخاست کرنا چاہیے۔
دو قاضیوں کی طرف سے نواز شریف کو معزول کرنے کی سزا درگزر یا ملتوی نہیں کی جاسکتی۔ نواز شریف اب ملزم نہیں بلکہ سزا یافتہ مجرم ہے۔
قوم کو سپریم کورٹ سے یہ بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی گرمیوں کی چھٹیاں منسوخ کریں۔ کیا دیگر سرکاری ملازم تین ماہ کی چھٹیاں لیتے ہیں؟
گرمیوں کی چھٹیاں سکول کے بچے لیتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ایک قاضی کیلئے چھٹیوں پر جانا حرام ہے، جبکہ ملک و قوم کا مستقبل داﺅ پر لگا ہو۔
سٹیٹ بینک، نیب، ایس ای سی پی کے سربراہان بھی نواز شریف کے چنے ہوئے چہیتے ہیں۔ ایف آئی اے کے ڈی جی بے اختیار اور ریٹائر ہونے والے ہیں۔
پاکستانی قوم کو جی آئی ٹی کے تمام ممبران پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی، ان کا سخت احتساب کرنا ہوگا۔ اب نواز شریف کی یہی آخری امید ہے۔
پی ٹی آئی اور شیخ رشید کو فوری طور پر الیکشن کمیشن میں نواز شریف کی معزولی کے لیے درخواست دینی چاہیے، ورنہ ایک اور دھرنہ!
اب نواز شریف کا سارا آسرا سپریم کورٹ کی چھٹیوں، جی آئی ٹی میں اپنے چہیتے پالتو داخل کرنا اور الیکشن کمیشن میں اپنی معزولی کو روکنے پر ہے۔
قاضیوں نے مجموعی طور پر اچھا فیصلہ کیا ہے، مگر نواز کو معطل نہ کرکے قوم سے ظلم کرگئے ہیں۔ اب 'گاڈ فادر' پوری ریاست کی طاقت استعمال کرےگا
ڈان لیکس کا فیصلہ بھی چند روز میں آجائے گا، مگر اس میں صرف چھوٹے مہرے ہی مارے جائیں گے۔ مریم کا نام تو آئے گا مگر سزا کوئی نہیں۔
اب نواز شریف سزا یافتہ ہے، تفتیش جاری ہے، اسے ساٹھ دن کی ضمانت ملی ہے، گو کہ ابھی بھی یہ وزیراعظم ہے، مگر قانونی و اخلاقی طور پر ناجائز۔
دو قاضیوں نے معزول کرنے کا حکم دیا ہے۔ تین نے معزول ہونے سے روکا نہیں ہے، صرف مزید تفتیش کا حکم دیا ہے۔ قانونا نواز شریف معزول ہوچکا ہے
جسٹس آصف سعید کھوسہ
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے نواز شریف اپنی ملکیتوں اور لندن کی جائیدادوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس قوم، پارلیمنٹ اور عدالت کے سامنے دیانت دار نہیں رہے۔
’اس بد دیانتی کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف آئین کی شق 62 اور عوامی نمائندگان کے قانون 1976 کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن رہنے کے اہل نہیں رہے۔‘
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے نوٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ میاں نواز شریف کو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے نااہل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے جس کے نتیجے میں وہ وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار پائیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صدر پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
جسٹس کھوسہ نے انسداد بدعنوانی کے ادارے نیب کو بھی حکم جاری کیا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے قوانین کے تحت کارروائی کرے۔
اس کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ نواز شریف کے خلاف اپنے سابق ڈائریکٹر جنرل رحمٰن ملک (جو اب پیپلز پارٹی کے سینٹیر ہیں) کی جانب سے 1994 میں درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش، شواہد اور تفصیل بھی ضرورت پڑنے پر نیب کو فراہم کرے۔
جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں نیب کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ میاں نواز شریف کے بچوں کے نام پر قائم کردہ تمام جائیدادوں اور کاروبار کا بھی جائزہ لے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ بچے اپنے والد کے لیے یہ جائیدادیں اور کاربار تو نہیں چلا رہے؟
جسٹس کھوسہ نے نیب کے سربراہ کے بارے میں کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے معامہ میں قمر زمان چوہدری کا کردار مشکوک ہے اس لیے وہ ان فریقین کے سلسلے میں ہونے والی کسی تفتیش میں کسی قسم کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔
جسٹس کھوسہ نے نیب کو وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کی بریت کے فیصلے کو ختم کرتے ہوئے منی لانڈرنگ معاملے میں کارروائی کا حکم دیا ہے۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1291212574266884