ایک حکمران کیلئے صرف یہ کافی نہیں کہ وہ مخلص یا ایماندار ہے۔ انتہائی درجے کی عقل، حکمت اور فراست بھی ہونا لازم ہے، ورنہ مکمل تباہی ہوگی۔
اسی لیے اقبالؒ بابا نے میر کارواں کیلئے شرط ہی یہ رکھی ہے کہ اس کو ’نگاہ بلند‘ بھی ہونا چاہیے، وہ ’سخن دلنواز‘ بھی ہو اور ’جاں پرسوز‘ بھی
پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ لیڈر یا تو سمجھدار ڈاکو ہیں، یا انتہائی احمق ایماندار۔ قوم اگر ایک مگرمچھ سے بچتی ہے تو دوسرے کھڈ میں گرتی ہے
80 کی دہائی میں امت مسلمہ کی عظیم ترین تحریک مزاحمت اور جہاد افغانستان میں پاکستان کی شرکت کے خلاف بیان دے کر عمران نے تو مجھے تپا ہی دیا
عمران کو قطعی طور پر سیاست ، دفاعی امور، تاریخی تغیر اور بین الاقوامی امور کی دھیلے کی سمجھ نہیں۔ اس سے زیادہ تو میرے ڈرائیور کو سمجھ ہے۔
71 ءمیں سوویت یونین نے بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کو توڑا ۔ 79 ءمیں ہمارا یہی خونخوار دشمن درہ خیبر تک آ پہنچا تھا۔ اب پاکستان کیا کرتا؟
پچھلے ڈھائی سو سال سے روس ایشیاءوسطی کے مسلمان علاقوں کو ہڑپ کرتا ہوا بحر ہند کی جانب بڑھ رہا تھا۔ 79 ءمیں وہ افغانستان میں داخل ہوا۔
ذرا سوچیں کہ اگر سوویت افغانستان پر پوری طرح قابض ہوجاتا، تو پھر یہ دونوں(سوویت۔بھارت) ملکر بچے کچھے کمزور پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کرتے؟
افغان جہاد میں شامل ہو کر سوویت کو افغانستان میں روکنا پاکستان کی عسکری و سیاسی تاریخ کا عظیم ترین فیصلہ تھا جس نے تاریخ کا رخ بدل دیا
یہ وقت جرات مندانہ پالیسی تھی کہ ہم نے دنیا کو اپنے ساتھ ملایا، اتحاد بنائے، اور پھر سوویت یونین کو افغانستان میں دفن کیا۔
اسی دور میں دنیا سے ملنے والی امداد سے ہم نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ترقی دی، میزائل بنائے اور دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔
اس سے زیادہ جرات مندانہ فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ ہم افغانستان میں سوویت یونین سے انتقام بھی لیں اور خود ایٹمی طاقت بھی بن جائیں۔
اس جرات مندانہ افغان پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورا ایشیاءوسطی آزاد ہے ، سی پیک بن رہا ہے، وہی روس عزت سے پاکستان کے قریب آرہا ہے
ذرا سوچیں کہ اگر سوویت افغانستان پر قبضہ کرلیتا اور پھر بھارت و سوویت پاکستان پر چڑھائی کردیتے، تو 71 ءمیں زخمی پاکستان کہاں جاتا؟
آج عمران کا یہ کہنا کہ ہم نے افغان جہاد میں شرکت کرکے غلطی کی، نہ صرف انتہا درجے کی جہالت ہے، بلکہ لاکھوں شہداءکے خون کی توہین بھی ہے۔
افغان جہاد کی برکت سے کشمیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی، فلسطینی انتفادہ کا آغاز ہوا، ایشیاوسطی وچچینا آزاد ہوا، بوسنیی مسلمان بیدار ہوئے
جس طرح آج سی پیک کو گیم چینجر کہا جارہا ہے، اسی طرح افغان جہاد بھی بین الاقوامی سطح پر خصوصاً پاکستان کیلئے سی پیک سے بڑا گیم چینجر تھا
اگر جنرل ضیا اور انکے ساتھ 28 فوجی افسروں کو موساد و راءکی جانب سے شہید نہ کیا جاتا تو آج افغانستان اور ایشیاوسطی تک پاکستان کی رسائی ہوتی
جنرل ضیاءکے بعد آنے والی سیاسی حکومتوں نے افغان جہاد کی قربانیوں اور حکمت عملی کا بیڑا غرق کیا۔ اس میں جنرل ضیاءکا کوئی قصور نہیں ہے۔
افغان جہاد نہ تو امریکہ کی جنگ تھی نہ ’دوسروں‘ کی لڑائی۔ یہ پاکستان کی اپنی مغربی سرحدوں کے دفاع اور امت مسلمہ کے احیاءکا جہاد تھا۔
آج اگر پاک فوج حرمین کے دفاع کیلئے حجاز جاتی ہے تو یہ اوروں کی لڑائی نہیں ہے۔ قائداعظمؒ نے بھی فلسطین و انڈونیشیاکیلئے آواز اٹھائی تھی
یہ پاکستان کی بدنصیبی ہے کہ ہمارے ’ایماندار‘ سیاست دان بھی، اس قدر جاہل ہیں کہ انسان یا اپنا سر پیٹ لے یا ان کا سر دیوار میں مارے۔
پاکستان نے امت مسلمہ کی قیادت کرنی ہے۔امت کے مسائل میں کردار ادا کرنا ’اوروں‘ کی لڑائی نہیں ہوتا، مگر بیوقوفوں و بے شرموں کو کون سمجھائے
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1274958299225645:0