ہماری اس بات کو ذرا غور سے سنو۔سیدی رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جو ہم میں سے بڑوں کا ادب نہ کرے اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
اس صفحے پر دس لاکھ کے قریب ممبران ہیں۔تقریباً سات لاکھ کے قریب ایسے ہیں کہ جن کی عمریں تیس سال سے کم ہیں۔ یعنی میرے بچوں سے بھی چھوٹے یا ان کے برابر۔
آج الحمدللہ، اسلامی قائدے کے مطابق میری عمر 55 برس کے قریب ہوچکی ہے۔ نانا، دادا بن چکا ہوں، آج میرے ہم جماعت فوج میں لیفٹیننٹ جنرل تک پہنچ چکے ہیں، سپہ سالار بھی دو چار سال ہی عمر میں بڑے ہیں۔ ساری زندگی سیکورٹی اور دفاعی تجزکاری کے امور میں گزری، پوری دنیا سے سیکورٹی اور انٹیلی رپورٹیں ہمارے ادارے میں آتی ہیں۔ جو علم ہمارے پاس ہے اللہ کے فضل سے پاکستان کے کسی اور پرائیویٹ دفاعی ادارے کے پاس نہیں ہے۔
اس صفحے پر دس لاکھ میں سے کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے کہ جو ہمارے اس میدان میں ہمیں چیلنج کرسکے، ہم سے زیادہ علم رکھتا ہو یا ہم سے زیادہ وسائل رکھتا ہو۔
جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بیس بیس اور تیس تیس سال کے نوجوان ہم سے اتنی فحش زبان میں گفتگو کررہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، بدکلامی کررہے ہیں، تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یا اللہ! ان بچوں کے والدین نے ایسے کونسے گناہ کیے تھے کہ تو نے عذاب کے طور پر ان کو ایسی اولاد دی۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس مسلک یا فرقے سے ہیں۔ جب آپ فحش کلام ہیں، بے حیاءہیں، بڑوں کا ادب نہیں کرتے، چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتے، تو پھر جائیں بنارس کے مندروں میں پوجا کریں آپ کو اس امت رسولﷺ سے کیا واسطہ اور تعلق؟
آج پاکستان میں کوئی بھی فرد جو ہمارے مقام پر فائز ہو، ایسا نہیں ہے کہ جو اس قدر براہ راست سوشل میڈیا پر چھوٹے چھوٹے بچوں کے سوالات کا جواب دے۔ کیا عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری، مریم نواز، آئی ایس پی آر یا کوئی اور معروف وجود اس طرح نیچے آکر ایک ایک بچے کے سوال کا جواب دیتا ہے؟
ہم خود ان کی بچگانہ اور جاہلانہ باتوں کا جواب تحمل سے دیتے ہیں، اکثر ان میں ایسے گستاخ اور بے ادب ہوجاتے ہیں کہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ہم انہیں بلاک کردیں۔ بد نصیب اولادیں اور ان کے بدنصیب والدین اور ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
ہمیں کوئی حاجت نہیں ہے کہ ہم فیس بک پر بیٹھ کر آپ سے باتیں کریں۔ نہ آپ ہمیں چندہ دیتے ہیں، نہ آپ ہمارے سیاسی ورکر ہیں، نہ ہمیں آپ سے تائید اور امید ملتی ہے جب ہم مشکل میں ہوتے ہیں، نہ آپ ہمارے گھر کے کام کرتے ہیں، تو پھر ہم کیوں اپنے سفید سر کے ساتھ بے شرم اور بے حیاءلونڈوں سے گالیاں کھائیں؟
اگر کسی کو اللہ نے ذرا سی بھی فراست دی ہے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ ہمارا یہ مشن سایہءخدائے ذوالجلال میں ہے۔ پوری دنیا کی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود ایک اکیلا فقیر تن تنہا کھڑا ہے ہر روز اس پاک سرزمین کے دفاع میں گالیاں کھا رہا ہے، الزامات برداشت کررہا ہے، دشمنیاں مول لے رہا ہے، مگر اللہ کے فضل سے پھر بھی کھڑا ہے۔ کسی کو اگر اس پر اللہ کا فضل نظر نہیں آتا تو پھر اللہ کو بھی ایسے اندھے، گونگے ،بہرے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
اگر ہم آپ سے بات کرتے ہیں تو اس کی قدر کریں، سیکھیں۔ ہمیں سکھانے یہاں نہ آئیں، ہمیں لیکچر نہ دیں، ہمیں خطبہ نہ دیں، ہمیں دین نہ سکھائیں۔ اللہ کے فضل سے جب آپ لوگوں کی اکثریت ماﺅں کے پیٹ میں بھی نہیں تھی، اس وقت یہ فقیر دنیا کی عالمی طاقتوں کے خلاف میدان جنگ میں جہاد میں مصروف تھا۔ لہذا کچھ شرم کریں۔
بے حیائی، بے شرمی اور گستاخی کرکے اپنے ماں باپ کو اللہ اور اسکے رسولﷺ کے آگے شرمندہ نہ کروائیں۔
یاد رکھیے گا درخت ہمیشہ اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1355007801220694