Friday, 16 December 2016

ہر وہ شخص جو خود کو عالم دین یا مبلغ کہے، اور ہمارے بچوں کے قاتلوں کا نہ نام لے اور نہ ہی ان کو روکے، وہ بھیڑیا تو ہوسکتا ہے، عالم نہیں!


16 دسمبر ایک بار پھر آپہنچا ہے، سقوط ڈھاکہ کا غم ہی کیا کم تھا کہ پشاور کا بچوں کا دکھ بھی تازہ ہوگیا۔

ہمارے بچے تو شہید ہوئے ہی، اس سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اس ملک کی عدلیہ، حکمران، اشرافیہ اور علماءایسے بن گئے کہ جیسے یہ قیامت کبھی آئی ہی نہیں۔

قوم کی اشرافیہ اور علماءنے بچوں کے غم میں مگر مچھ کے آنسو تو بہائے، مگر کسی بے غیرت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ان کے قاتلوں کو نام بھی لے سکے

ہمارے بچوں کے قاتل، ان کے سرپرست، ان کے حمایتی، آج بھی پوری ڈھٹائی اور بےشرمی سے نہ صرف حکومت میں ہیں بلکہ منبر پر بیٹھ کروعظ بھی کرتے ہیں

اللہ بار بار اس قوم کو تنبیہ کرتا رہا، پہلے اے پی ایس، پھر باچہ خان یونیورسٹی، پھر کوئٹہ پولیس اکیڈمی۔ وہی قاتل، وہی ان کے حمایتی۔

اس سے زیادہ بے غیرت اور کون ہوسکتا ہے جو ہمارے ان بچوں کے قتل پر آنسو بہانے کا ڈرامہ تو کرے، مگر نہ قاتلوں کا نام لے نہ ان کو ظلم سے روکے۔

سیدی رسول اللہﷺ نے تو فرمایا ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو کہ مظلوم۔ اور ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے روکا جائے۔

ہمارے بچوں کے جنازے اٹھنے کے بعد قومی ایکشن پلان بنایا گیا، فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ آج انہی قاتلوں کے حمایتیوں نے سب کچھ دفن کردیا۔

ہمارے سفاک اور ناپاک مشرک اور خوارج دشمنوں نے تو اپنے حملے بند نہیں کیے۔ تو ہم نے کیوں قومی ایکشن پلان اورفوجی عدالتوں کو ختم کردیا؟

دشمن تو حملے جاری رکھے ہوئے ہے، ہر کچھ عرصے کے بعد ہمارے بچے ذبح ہوتے ہیں، تو پھر ہمارے علماءنے قاتلوں کے خلاف اپنی زبانیں کیوں بند کرلیں؟

ہمیں جاہلوں شکایت نہیں، قاتلوں کو پناہ دینے والے تو ہمارے حکمران، اشرافیہ اورعلماءہیں جو ان کے خلاف نہ زبان کھولتے ہیں نہ تلواراٹھاتے ہیں

سب سے افضل جہاد ظالموں کے سامنے کلمہءحق بلند کرنا ہے۔ پھراشرافیہ اورعلماءجو ان کفار کے آگے زبانیں بند رکھتے ہیں وہ کس شریعت پر ہیں۔

ایک وقت تھا کہ حکومت میڈیا،علماءحتیٰ کہ فوج میں بھی، کوئی الطاف حسین کے خلاف بولنے کی جرات نہ کرتا۔ ہم نے اس وقت بھی اس پلید کو پلید ہی کہا

آج لوگ ہم پر شدید حملے کرتے ہیں صرف اس لیے کہ ہم ملک کے علماءسے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے قاتلوں کو یا خوارج کہو یا انہیں ظلم سے روکو۔

ہر وہ شخص جو خود کو عالم دین یا مبلغ کہے، اور ہمارے بچوں کے قاتلوں کا نہ نام لے اور نہ ہی ان کو روکے، وہ بھیڑیا تو ہوسکتا ہے، عالم نہیں!

ہمیں کسی کے مسلک ، فرقے ، سیاسی جماعت سے کوئی غرض نہیں۔ مگر جو کوئی بھی پاکستان کے دشمنوں کی حمایت کرے گا، ہم اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔

جب ہم علماءسے کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے قاتلوں کو روکیں، تو ہمیں جواب دیا جاتا ہے کہ آپ فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں۔ جاہل لوگ!

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ خوارج اور ان کے حمایتی آج ہمارے اپنے گلی محلوں اور مساجد میں موجود ہیں۔ لال مسجد آپ کے سامنے ہے۔

جنوری میں فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوجائے گی۔ ملا فضلو نیشنل ایکشن پلان کو بند کرنے کا کہہ چکا ہے۔ تو کیا ہم نےسولہ دسمبر سے کچھ نہیں سیکھا؟

یہ جان لیں کہ خوارج کو وقتی شکست ضرور ہوئی ہے مگر ان کا فتنہ ابھی ختم نہیں ہوا۔وہ ہمارے مزید بچوں کی لاشیں گرابھی سکتے ہیں،اورچاہتے بھی ہیں

اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوگی کہ اتنی بڑی قیامت گزر گئی اور فوج کو عدلیہ حکومت، علما،اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں حمایت کی حاصل نہ ہوئی۔

ایک سولہ دسمبر پوری قوم کو آنے والے وقتوں کیلئے بیدار کرنے کیلئے کافی ہونا چاہیے تھا۔ مگر صد افسوس، اس قوم نے کچھ بھی نہ سیکھا۔

جہاں تک ہمارا اور پاک فوج کا تعلق ہے، ہم نے اللہ اوررسولﷺ کی حرمت پر قسم کھائی ہے کہ پاک سرزمین کا دفاع اور اپنے بچوں کا انتقام بھی لیں گے

پاکستان کے دشمن چاہے وہ داخلی ہوں یا خارجی، بیشک ہمیں تکلیف پہنچا سکتے ہیں، دکھ دے سکتے ہیں، مگر ان شاءاللہ کبھی توڑ نہیں سکتے۔

سولہ دسمبر کے دن ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ جب تک ان بچوں کے قاتلوں اور سہولت کاروں کو درد ناک عذاب نہ دیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

اللہ پاکستان کا، پاک فوج کا اور اس امت مرحوم کا حافظ و ناصر ہو۔ اللہ اس کے کھلے اور چھپے دشمنوں کو دنیا و آخرت میں رسوا کرے۔ آمین!
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1165436370177839:0