Posting an extremely important paper which can change your life for khair. Read it slowly and seek protection from Shaitan before you read it for you need full vision and noor to understand it.
آج لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ اپنا عقیدہ بتائیں؟
میں فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم حمیت جاہلیہ میں لت پت لوگوں کو کیا بتاﺅں کہ میرا عقیدہ عشق رسولﷺ ہے، اور میرا مسلک ادب رسولﷺ ہے، میرا عمل دفاع رسولﷺ ہے، میری زندگی و موت کا مقصد قرب رسولﷺ ہے۔
قائداعظمؒ سے بھی یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیا آپ شیعہ ہیں یا سنی؟
اس پر قائداعظمؒ نے سوال کرنے والے سے جوابی سوال کیا، کیا سیدی رسول اللہﷺ شیعہ ہیں کہ سنی؟
سیدی رسول اللہﷺ کی امت کا آج المیہ ہی یہی ہے کہ اب یہاں کوئی صرف مسلمان نہیں ہے۔ یا شیعہ ہے، یا سنی ہے، یا دیوبندی ہے، یا بریلوی ہے، عجمی ہے یا عربی ہے۔
قرآن پاک میں تو ہمارے رب نے ہمارا نام صرف ” مسلم“ رکھا تھا۔
”۔۔۔یہ تمہارے والدابراہیمؑ کی ملت ہے،اسی (رب) نے تمہارا نام مسلمین رکھا ہے۔۔۔“ (الحج، آیت ۸۷)
جب اللہ نے ہمارے لیے ہمارا دین مکمل کردیا اور اپنی تمام نعمتیں ہمارے لیے ظاہر کردیں تو اس وقت بھی اللہ نے واضح فرما دیا تھا کہ اس نے ہماری جماعت کا نام ”اسلام“ رکھا ہے۔
”۔۔۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔۔۔“ (المائدہ، آیت ۳)
یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ اللہ صرف اسلام کو قبول کرتا ہے فرقوں کو نہیں۔
بیشک اللہ کے نزدیک دین تو اسلام ہی ہے۔۔۔“ (اٰلِ عمران، آیت ۹۱)
بلکہ اللہ تو یہ فرماتا ہے کہ جس نے اسلام کو چھوڑ کر اسلام کے اندر فرقے بنانے شروع کردیئے ان کا نہ اللہ سے کوئی واسطہ ہے نہ اللہ کے رسولﷺ سے کوئی تعلق!
”بیشک جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنا لیے اور مختلف مسلکوں میں تقسیم ہوگئے،اے میرے حبیبﷺ آپ کا ایسے لوگوں سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے، ان کا معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے پھر وہی ان کو بتائے گا کہ یہ کیا کرتے رہے ہیں“۔(الانعام، آیت ۹۵۱)
........................
اب ہم قائداعظمؒ کی بات دہراتے ہیں۔ کیا اللہ کے رسولﷺ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ شیعہ کہلاتے تھے، سنی کہلاتے تھے، دیوبندی یا بریلوی کہلاتے تھے یا صرف مسلمان؟
کیا قبر میں ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ ہم کس مسلک اور فرقے کے تھے یا یہ پوچھا جائے گا کہ ”ما دین کم“، تمہارا دین کیا ہے“؟
کل جب یوم آخرت ہم دربار نبویﷺ میں پیش کیے جائینگے تو کیا شیعہ سنی دیوبندی بریلوی بن کر پیش ہونگے یا امتی کی حیثیت سے پیش کیے جائینگے؟
کیا جنت میں دیوبندی بریلوی اور شیعہ سنی جائیں گے یا صرف مسلمان امت رسولﷺ جائے گی؟
اس سے بڑا ظلم اور حرام عمل اور کیا ہوسکتا ہے کہ دین ابراہیمؑ پر قائم امت حنیف اور امت وسط کو، کہ جس کا نام مسلمان ہے، ہم فرقوں، مسلکوں اور مدرسوں میں تقسیم کرکے پارہ پارہ کردیں۔
دیوبند اور بریلی ہندوستان کے صرف دو مدرسوں کا نام تھا، ہم نے انہیں بگاڑ کر مسلک و فرقہ بنا لیا۔
شیعان علیؓ تو صرف حضرت علیؓ کے ساتھیوں کا خطاب تھا، آج یہ پورا فرقہ بن گیا ہے۔
کیا اہل بیت، سیدنا علیؓ، سیدہ فاطمہ الزہرہؓ، حسنین کریمینؓ، شیعہ تھے یا سنی؟
سیدی رسول اللہﷺ ہمیں حکم فرماتے ہیں کہ جس کا مفہوم ہے: ” میں اپنے بعد دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، اگر تم ان کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے، قرآن اور سنت۔“
یہ بھی روایت آتی ہے کہ ”قرآن اور اہل بیت“۔
دونوں ہی درست ہیں کہ حقیقت میں اہل بیت ہی اصل سنت رسولﷺ کے محافظ ہیں۔
یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لیں کہ اہل بیت ہونے کی ذمہ داریوں کا مطلب ہے کہ آپ کا تعلق نہ کسی فرقے ہوگا، نہ مسلک سے، نہ مدرسے سے۔ بلکہ آپ دین اسلام پر ہونگے، اس دین پر کہ جو سیدی رسول اللہﷺ، خلفائے راشدین اور اہل بیت کا دین ہے۔
فرقوں اور مسلکوں سے بلند ہو کر دین کی اصل روح پر قائم رہنا ہی اہل بیت کا اصل وقار ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ نے امت کو حکم دیا کہ اہل بیت کو مضبوطی سے تھام کے رکھو۔ فتنوں کے ہر دور میں کہ جب امت فرقوں، جماعتوں اور عصبیتوں میں تقسیم ہوگی، تو اس دور میں دین کی حفاظت کرنے والے اصل اہل بیت ہونگے کہ جو اپنے ناناﷺ کے دین کی حفاظت کیلئے سر پر کفن لپیٹ کر امت کے دفاع اور اتحاد کیلئے پرچم بلند کریں گے۔
تاریخ کے ہر دور میں اہل بیت کا کردار امت کے دفاع اور اس میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کا ہے۔ وہ ہمیشہ مسلک و فرقہ و سیاست کے اختلافات سے بلند صرف امت کا مفاد دیکھتے ہیں۔ اسی لیے سیدی رسول اللہﷺ نے سیدنا حسنؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ جس کا مفہوم ہے کہ ” میرا یہ بیٹا مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا“۔
اہل بیت میں سے ہونا جہاں ایک اعزاز ہے وہیں ایک انتہائی بھاری ذمہ داری بھی ہے۔ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہوتا ہے۔ صرف یہ دعویٰ کرنے سے کہ ہمارا تعلق اہل بیت سے ہے ،نہ کوئی اہل بیت کی سعادت کا حقدار ہوتا ہے، نہ سیدی رسول اللہﷺ کی شفاعت کا۔جیسے اقبالؒ نے فرمایا کہ اگر ہاشمی بیچے آبروئے دین مصطفیﷺ، تو پھر اس کا انجام بھی پسرِ نوحؑ جیسا ہوتا ہے۔
”اور جب نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا اور فرمایا: ” اے میرے رب میرا بیٹا تو میرے اہل بیت میں سے ہے اور بیشک آپ کا وعدہ سچا اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔“ جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”یہ تمہارے اہل بیت میں سے نہیں ہے،اس کا عمل ناپاک ہے۔۔۔“(ہود، آیت ۵۴۔ ۶۴)
سیدنا ابراہیمؑ سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ ان کو متقین کا امام بنائے گا اور جب سیدنا ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کے بارے میں بھی پوچھا تو اللہ نے فرمایا کہ میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ہے، یعنی اگر کوئی اولاد ابراہیمؑ سے بھی ہو، اور عمل غیر صالح ہو تو پھر اللہ کے وعدے کا حقدار نہیں!
”۔۔۔اللہ نے ابراہیمؑ سے فرمایا کہ میں آپ کو انسانوں کیلئے امام بناﺅں گا۔اس پر ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا: اور میری اولاد سے بھی؟ تو اس پر اللہ نے جواب عطا فرمایا: میرا وعدہ ظالموں کیلئے نہیں ہے۔۔۔“(البقرہ، آیت ۴۲۱) یعنی اگر اولاد ابراہیمؑ میں بھی اگر کوئی ظالم ہو تو اللہ کی رحمت اور فضل سے محروم کردیا جائے گا۔
سیدنا حسینؓ کے دور میں جب اللہ کے دین پر کڑا وقت آیا تب بھی اہل بیت ہی کھڑے ہوئے۔
۔۔۔دین است حسینؓ، دین پناہ است حسینؓ
سر داد نداد دست در دست یزید۔۔۔
(مفہوم) اس دور میں حسین ؓکے پاس ہی اصل تھا، وہی دین مصطفیﷺ کے محافظ تھے
انہوں نے اپنا سر تو قربان کردیا مگر یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کی اور اس طرح اپنے نانا ﷺ کے دین کی حفاظت فرمائی۔
........................
اس دور میں حضرت علیؓ کے چند ساتھیوں کو شیعان علیؓ کا نام دیا جانے لگا۔یہ اچھی طرح جان لیں کہ اہل بیت اور شیعان علیؓ دو الگ الگ گروہ ہیں۔وہ شیعہ کہلاتے ہی اس لیے تھے کہ وہ اہل بیت نہیں تھے،اہل بیت کے حمایتی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے،کہ جن کی اکثریت اس وقت کوفہ میں تھی۔
یہ بات خلاف تاریخ بھی ہوگی ، خلاف حقیقت بھی اور اہل بیت سے مذاق بھی، کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ اہل بیت میں سے بھی ہے اور شیعان علیؓ میں سے بھی یا کسی اورفرقے میں بٹا ہوا دیوبندی یا بریلوی۔
اہل بیت میں سے کوئی بھی وجود کسی فرقے کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ جو کسی فرقے کا حصہ ہوگا، وہ پھر وہ ہاشمی ہوگا کہ جو بیچتا ہے آبروئے دین مصطفیﷺ!
امت رسولﷺ ایک مکمل وجود کا نام ہے۔اس کی قیادت ، حفاظت اور نگہبانی اسی لیے اہل بیت کے حوالے کی گئی ہے کہ وہ ذیلی فرقوں میں محدود نہیں ہوتے، ان کی فکر و سوچیں صرف ایک مسلک و فرقے پر پابند نہیں ہوتیں، وہ پوری امت کے نگہبان ہوتے ہیں،پوری ملت کے محافظ ہوتے ہیں،ہر قسم کے فرقہ وارانہ ، قومیتی، لسانیتی یا عربی و عجمی کے تعصب سے بالاتر صرف دین مصطفیﷺ کے محافظ ہوتے ہیں۔
سیدنا حسینؓ اہل بیت میں سے ہیں، دین کی حفاظت کیلئے کھڑے ہوئے۔ آپ کی مخالفت وقت کے یزید نے کی، اور آپ کو دھوکہ کوفہ کے شیعان علیؓ نے دیا۔ واقعہ کربلا کے بعد بی بی زینبؓ کا وہ خطبہ کہ جو آپؓ نے کوفہ کے شیعان علیؓ کو مخاطب کرکے دیا تھا، تاریخ کا ایک دردناک حصہ ہے۔
”اے کوفہ کے لوگو!اے دھوکے بازو! اے جنہوں نے ہم سے اپنے کیے ہوئے وعدے توڑے(اور دھوکہ دے کے ) پیچھے ہٹ گئے،تم سب غدار ہو!اللہ کرے کہ اب (قیامت تک)نہ کبھی تمہارا ماتم بند ہونہ کبھی تمہارے آنسو تھمیں۔۔۔“
....................
واقعہ کربلا ہمیں بہت دردناک سبق سکھاتا ہے۔ جب دین مصطفیﷺ پر کڑا وقت آتا ہے تو اہل بیت کو لازماً کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جان و مال و عزت و خاندان کی قربانی دینی پڑتی ہے، اور اس مشکل گھڑی میں سفاک دشمنوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے، اور اپنوں کی غداری سے بھی۔ مگر یہ وہ قیمت ہے کہ جو اصل اہل بیت بہت خوشی سے دیتے ہیں، کہ سیدی رسول اللہﷺ نے ان کی ذمہ داری لگائی ہے کہ ہر تاریک دور میں دین کی حفاظت کیلئے کھڑے ہوں۔ جو ان کا ساتھ دیتا ہے خوش نصیب ہوتا ہے، چاہے کربلا میں کاٹ ہی کیوں نہ دیا جائے۔ جو ان کی مخالفت کرتا ہے جہنمی ہوتا ہے، چاہے وقت کا حکمران ہی کیوں نہ ہو۔ جو ان کو دھوکہ دیتا ہے، وہ اپنی دنیا و آخرت تباہ کراتا ہے، چاہے بعد میں کتنا ہی ماتم و توبہ کیوں نہ کرے۔
یہ اللہ کے ازلی اور ابدی قانون ہیں، یہ تبدیل نہیں ہوتے۔
آج کے اس دور میں امت کو وہی فتنے درپیش ہیں کہ جو سیدنا حسینؓ کے دور میں تھے۔ یزید بھی ہے، کوفی بھی ہیں، بے حس امت بھی ہے، خوارج بھی ہیں، اور اہل بیت بھی۔
آگ ہے، اولاد ابراہیمؑ ہے، نمرود ہے
کیا پھر کسی کو کسی کا امتحاں مقصود ہے
یہ بات اچھی طرح یاد کرلیں کہ حسینی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی، یا اہل بیت۔ حسینی ایک عظیم اور جلیل القدر طرز حیات کا نام ہے، کہ جس میں قدم قدم پر قیامت صغریٰ اور کربلا مچتی ہے۔ ہر دور میں دین کی حفاظت کی ذمہ داری اہل بیت کی ہے۔ ان کے چہرے روشن، کردار جلیل القدر اور عمل فرقہ و تقسیم سے بلند ہوتا ہے۔ جو اہل بیت ہونے کا دعویٰ تو کرے مگر چہرہ مکروہ رکھے، کردار بے کردار ہو اور عمل امت رسولﷺ کو فرقوں میں تقسیم کرنے کا ہو تو سمجھ لیں ”پسرِ نوحؑ“ ہے، اس کا عمل غیر صالح ہے۔
٭٭٭٭٭
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1356501137738027:0