آج کا دور فتنوں کا دور ہے، علم اٹھا لیا گیا ہے، امت فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم ہے، نہ کوئی مرکزی دینی قیادت ہے نہ سیاسی۔
پاکستان کے اندر بھی فکری انتشار اور سیاسی و مذہبی تعصب اس قدر شدید ہے کہ حقیقت میں قوم کی اکثریت کی تو عقل ہی ماری گئی ہے۔قرآن ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ ایسے اندھے گونگے اور بہرے کہ جن کو اب ہدایت نہیں دی جاسکتی، صبم بکم عمی۔
پاکستان میں جن افراد کا تعلق سیاسی و مذہبی جماعتوں سے ہے، وہ سب سے زیادہ پاکستان میں نظام خلافت راشدہ کی مخالفت کررہے ہیں۔
جب ہم نظام خلافت راشدہ کی بات کرتے ہیں تو یہ ذہنی معذور یہ تک نہیں جانتے کہ خلافت راشدہ اور نظام خلافت راشدہ میں کیا فرق ہے؟
فوراً ہی احمقانہ سوالات داغنے شروع کردیتے ہیں، خلیفہ کون ہوگا؟ کس فرقے سے ہوگا؟ کونسا مسلک نافذ کیا جائے گا؟ خلیفہ کا انتخاب کون کرے گا؟
ان تمام افراد کو کہ جو نظام خلافت راشدہ کے بارے میں شک کا شکار ہیں ہم تاکید کریں گے کہ ہماری کتاب ”خلافت راشدہ“ کا مطالعہ کریں۔
نظام خلافت راشدہ کا مقصد پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے جس میں ہر فرد کی جان،مال وعزت محفوظ ہوگی۔ اس کا مسلک سے کیا تعلق ؟
نظام خلافت راشدہ کا مطلب ہے کہ حکمران نیک اور محب وطن ہوں، عوام کی فلاح کا خیال کریں، اللہ اور اسکے رسولﷺ کے آگے جوابدہ ہوں۔
حضرت علیؓ نے جو خط مالک اشتر کو لکھا تھا، وہ نظام خلافت راشدہ کی شاندار ترین مثال ہے۔ اس خط میں کونسی فرقہ وارانہ یا مسلکی بات تھی؟
پچھلے دنوں ہم نے نوجوانوں کے ایک گروہ سے سوال کیا۔ اگر آپ کے سامنے سور کا گوشت، کتے کا گوشت یا مردہ مرغی رکھی جائے تو آپ کیا کھائیں گے؟
کیا آپ یقین کریں گے کہ ہمارے سوال کے جواب میں تقریباً تمام ہی نوجوانوں نے کہا کہ وہ مردہ مرغی کھا لیں گے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
یہی ہماری قوم کا المیہ ہے، حرام و حلال کی تمیز مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ حلالی اور حرامی کی تمیز بھی مٹ چکی ہے، اور قوم حرام پر راضی ہے۔
جب بتایا جاچکا ہے کہ جمہوریت حرام ہے،مارشل لاءمسئلے کا حل نہیں، تو پھر بھی اس سوال کا کیا مطلب ہے ”تو پھر ہم کیا کریں....؟“
کچھ مسخرے کہتے ہیں کہ جمہوریت کو ایک چانس اورملنا چاہیے کہ ابھی عمران کو باری نہیں ملی۔ کیا پاکستان کوئی کرکٹ میچ ہے کہ سب باری لینگے؟
دشمن ہم پر کھلی جنگ مسلط کرچکا ہے،جمہوریت قوم کیلئے بدترین ”انتقام“ ثابت ہوئی ہے، پھر بھی یہ ظالم کہتے ہیں جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونی چاہیے
پاناما فیصلے نظر آرہا ہے کہ حکومت فارغ ہونیوالی ہے۔ صدر سمیت تمام پارلیمان کو فارغ کرکے نئی عبوری حکومت اور عبوری صدر فوری لایا جائے۔
پاکستان کو ایک نیشنل سیکورٹی کاﺅنسل کی ضرورت ہے،جس میں فوج اور نئی سول عبوری حکومت بیٹھے۔ سربراہ ملک کا نیا طاقتور صدر ہو۔
یہ نیشنل سیکورٹی کاﺅنسل، سول اور فوج ملکر، عبوری حکومت کے دور میں سخت ترین احتساب کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو حرام خوروں سے پاک کرے۔
عبوری حکومت اور نیشنل سیکورٹی کاﺅنسل ملک میں نئے صدارتی نظام، نئے انتخابی طریقہ کار اور نئے سیاسی عمل کیلئے پورے نظام کا ڈھانچہ تبدیل کرے
اس پورے نظام کو تبدیل کرنے اور ملک کو استحکام بخشنے کیلئے عبوری حکومت اور نیشنل سیکورٹی کاﺅنسل کو کم از کم دو سال کا عرصہ درکار ہے۔
دو سال کے اندر یہ عبوری حکومت اور نیشنل سیکورٹی کاﺅنسل ملک کو مستحکم کرے گی، احتساب کرے گی، پھر سیاسی عمل کو دوبارہ جاری کیا جاسکتا ہے۔
نیا نظام صدارتی ہو، پوری قوم صدر کا انتخاب کرے جیسے ایران یا امریکہ میں ہوتا ہے۔ صدارتی امیدواروں کا انتخاب فوج اور سپریم کورٹ کرے۔
کیا پاکستان کے بیس کروڑ عوام میں سے ہمیں 100 ایسے محب وطن، قابل اور صاف ستھرے لوگ نہیں ملیں گے کہ جن سے عبوری حکومت قائم کی جاسکے؟
کیا بیس کروڑ عوام میں ہمیں 5 ایسے قابل، مدبر، سنجیدہ، صاحب علم اور صاحب نظر افراد نہیں ملیں گے کہ جن سے ملک کے صدر کا انتخاب کیا جاسکے؟
منتخب صدر فوج و سپریم کورٹ کے مشورے سے ٹیکنوکریٹک حکومت قائم کرے، این ایس سی اس بات کی ضامن ہوگی کہ تمام فیصلے سول و فوج کی مرضی سے ہوں
پاکستان جمہوری و فوجی حکومتیں دیکھ چکا۔ اب وقت ہے کہ فوج کو حکومت میں آئینی حصہ دے کراین ایس سی کے ذریعے سول.فوجی نظام حکومت بنایا جائے
پاکستان کو اپنے سیاسی نظام کو از سر نو جدید خطوط پر دوبارہ تخلیق کرنا ہے۔ قائداعظمؒ نے بھی صدارتی نظام کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا تھا
اس کام کو کرنے کیلئے مرد آزاد چاہیے۔ جمہوریت کے فرسودہ نظام اور انگریزوں کے غلاموں سے نہ یہ کام ہو گا اور نہ ہی وہ اس کو کرنا چاہتے ہیں
پاکستان کی تاریخ یہ ثابت کرچکی ہے کہ نہ تو سیاستدانوں کو مادر پدر آزادی دی جاسکتی ہے، نہ فوج کو آمریت قائم کرنے کی اجازت۔
صدارتی نظام، نیشنل سیکورٹی کاﺅنسل، ٹیکنوکریٹک حکومت، غیر سیاسی پارلیمان کہ جس کے پاس مجلس شوریٰ کا اختیار ہو، مال بنانے کا نہیں۔
نئی پارلیمان ترتیب دی جائے گی۔ اس میں تمام قومی اداروں کی نمائندگی ہوگی۔ فیصلہ سازی میں بھوکی عوام نہیں بلکہ صاحب رائے لوگ شامل ہونگے۔
آج پارلیمان میں وہی لوگ ہیں جن کو جاہل اور بھوکی ننگی اکثریت ووٹ دے کر بھیجتی ہے۔ بھیجنے والے بھی جاہل اور اندر پہنچنے والے بھی خائن۔
(بھوکی ننگی قوم ووٹ کی لائن میں بیٹھی ہے۔)
پارلیمان کا کام صرف شوری اور قانون سازی کا ہوگا۔ کوئی ترقیاتی فنڈ ممبران پارلیمان کے پاس نہیں ہونگے۔ یہ ذمہ داری ہوگی نہ کہ کاروبار۔
اس نظام میں اہم ملکی فیصلے، چاہے خارجہ پالیسی ہویا قومی اداروں کے سربراہان مقرر کرنا ہوں، سب نیشنل سیکورٹی کاﺅنسل میں طے کیا جائے گا۔
صدر با اختیارہوگا، مگر مادر پدر آزاد نہیں۔ ٹیکنوکریٹ حکومت فوج کو ساتھ لے کر چلے گی، پارلیمان بھی ہوگی مگر سیاسی جماعتوں سے پاک۔
پاکستان کے سیاسی نظام میں جتنی بھی خرابیاں ہیں، ملوکیت، خاندانی قبضے ، کرپشن ، سول ملٹری تصادم... سب کچھ اس نظام سے حل ہوجاتا ہے۔
پاناما کیس اب ایسے مقام پر آچکا ہے کہ جس کے بعد حکومتوں کو تحلیل ہی ہونا ہے، اور نئے انتخابات سے قبل عبوری حکومت نے بننا ہی ہے۔
اب فوج اور سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ اسی کینسر زدہ جمہوریت کو چلانا چاہتے ہیں یا سیاسی نظام کومستقلاً ٹھیک کرنا چاہتے ہیں
اگر فوج اور سپریم کورٹ آج اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے تو کل جب یہ ملک و قوم جلے گی، تو فوج اور سپریم کورٹ بھی اس کے ساتھ ہی جلے گی۔
آج اختیار و طاقت سپہ سالار اور چیف جسٹس کے ہاتھ میں ہے۔ جمہوریت کی غلاظت پوری طرح ابل کر باہر آچکی ہے۔وقت ہے کہ اس کو دفن کردیا جائے۔
مکمل مارشل لاءو مکمل سیاسی انارکی کے درمیان اب صرف یہی ایک واحد راستہ بچا ہے، مخلص ترین افراد پر مشتمل صدارتی نظام.
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1360520217336119